نسبندی کا شرعی حکم
نسبندی کا شرعی حکم روشن تحقیق
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام کہ نس بندی کرانا کیسا ہے جبکہ ڈاکٹر یہ کہے کہ اب یہ عورت مزید بچے پیدا کرے گی، جس سے اسے سخت بیماری پیدا ہونے یا جان کا خطرہ ہے، اور باقی ضبط تولید کے ذرائع سے بھی کبھی خطرہ رہتا ہے، وہ ذرائع فیل ہو جاتے ہیں، اور عورت حاملہ ہو جاتی ہے، اس صورت میں عورت کی مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے حکم شرعی بیان فرمائیں۔
*سائل: محمد علی باڑمیر*
.
وعلیکم السلام ورحمتہ وبرکاتہ
الجواب وباللہ توفیق
نسبندی کی جائز اور ناجائز صورتیں بیان کرتے ہوئے
علامہ غلام رسول سعیدی، شرح مسلم جلد سوم میں فرماتے ہیں
1۔ کوئی شخص تنگی رزق کے خوف کی وجہ سے خاندانی منصوبہ بندی (نسبندی کرواتا ہے) اصلًا جائز نہیں ہے، یہ اس لیے کہ حرمت کی علت تنگی رزق کا ہونا قرآن مجید میں مذموم ہے:
"لا تقتلوا اولادکم من املاق
(سورہ نمبر 6آیت 151"
2۔ اور کوئی شخص لڑکیوں کی پیدائش سے احتراز کے لیے ضبط تولید کرے، کیونکہ ان کی پرورش میں مشقت اور عار کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ نیت زمانہ جاہلیت کے مشرکین عرب کی ہے، قرآن اور حدیث میں اس کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے۔
3۔ (اور) جن صورتوں میں بالخصوص حالات کے تحت انفرادی طور پر ضبط تولید جائز ہے، وہ حسب ذیل ہیں:
1۔ لونڈیوں سے ضبط تولید کرنا تاکہ اولاد مزید لونڈی اور غلام بننے سے محفوظ رہے، ہر چند کہ اب لونڈی غلام کا رواج نہیں ہے لیکن اسلام کے احکام دائمی اور کلی ہیں، اگر کسی زمانے میں یہ رواج ہو جائے تو لونڈیوں کے ساتھ ضبط تولید کا عمل جائز ہوگا۔ (اور)
(دوسری صورت)
2۔ اگر سلسلہ تولید کو قائم رکھنے سے عورت کے شدید بیمار ہونے کا خدشہ ہو، تو ضبط تولید جائز ہے۔
۔ اگر مسلسل پیدائش سے بچوں کی تربیت اور نگہداشت میں حرج کا خدشہ ہو، تو وقفے سے پیدائش کے لیے ضبط تولید جائز ہے، کیونکہ جب گھر میں صرف ایک عورت ہو اور نودس ماہ بعد دوسرا بچہ آ جائے، تو اس کے لیے دونوں بچوں کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے، اور وضع حمل کے وقفوں کے دوران بعض صورتوں میں انسان اپنی خواہش پوری نہیں کر سکتا، اس لیے زیادہ عرصہ تک بیوی سے جنسی خواہش پوری کرنے کی نیت سے ضبط تولید کرنا جائز ۔ اگر کوئی شخص عورت سے محبت کی وجہ سے اس کو ایام حمل و زچگی کی تکلیف سے بچانا چاہتا ہو، یہ جائز ہے۔
5۔ اگر عورت کے حسن و جمال کو قائم رکھنے کے لیے یہ عمل کرے، تو صحیح ہے کہ امام غزالی نے فرمایا: شرح مسلم جلد 3 صفحہ 887
6۔ جیسا کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: زیادہ بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی خاطر انسان کو آمادہ کرنے کے لیے زیادتی محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے۔
---4
6➝ جیسا کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، زیادہ بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی خاطر انسان کو آمدنی کے لیے زیادہ محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے۔
انسان دوسری تھری نوکریاں اور اوور ٹائم (over time) کرتا ہے اور بسا اوقات ناجائز وسیلوں کو بھی اختیار کرتا ہے۔ اپنے آپ کو اس محنت و مشقت سے بچانے اور مشقت کو کم کرنے کے لیے یہ عمل جائز ہے، کیونکہ جس قدر آدمی کے لیے مشقت کم ہوگی، وہ عبادت کے لیے فارغ ہوگا۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہ وجہ اختیار کی ہے۔
علامہ غلام رسول سعیدی رحمتہ االلہ فرماتے ہیں
➝ بعض عورتوں کو آپریشن سے بچ ہوتا ہے، بیوی کو آپریشن کی تکلیف سے اور جان کے خطرے سے بچانے کے لیے یہ عمل جائز ہے۔
➝ جب پیٹ میں مزید آپریشن کی گنجائش نہ رہے، تو ایسا طریقہ اختیار کرنا واجب ہے جس سے سلسلہ تولید بالکل بند ہو جائے۔ اگر ماہر ڈاکٹر یہ کہے کہ مزید بچہ پیدا ہونے سے عورت کی جان خطرہ میں پڑ جائے گی، تب بھی سلسلہ تولید کو بند کرنا واجب ہے۔
عزل کے علاوہ ضبط تولید کے حسب ذیل مروج طریقے بھی جائز ہیں:
1۔ کھانے والی گولیاں، اور انجیکشن، اور کیمیاوی اشیاء مثلاً جِیلی اور کریم وغیرہ بیرونی استعمال -
کنڈوم اور آخری ن نل بندی یعنی نل بندی میں عورت کے بچہ دانی کی نالی کو کاٹ کر باندھنا جاتا ہے ( (اس کو copreti چہ کھتے ہے اور یہ جائز ہے) اور ایک طریقہ نل بندی میں معاملہ دائمی طور پر ختم ہو جاتا ہے، بعد عمل کے بعد عورت کبھی بچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ یہ عمل صرف دو صورتوں میں جائز ہے:
---6
نسبندی کہتے ہیں (نسبندی)
اس کے بارے میں علامہ غلام رسول سعیدی فرماتے ہیں کہ اس عمل کے بعد عورت کبھی بچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ یہ عمل صرف دو صورتوں میں جائز ہے:
ایک اس صورت میں جب عورت کو آپریشن سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور مزید آپریشن کی گنجائش نہ رہے،
اور دوسری صورت میں جب کوئی ماہر ڈاکٹر یہ کہے کہ بچہ پیدا ہونے سے یا مزید بچہ پیدا ہونے سے عورت کی ہلاکت کا خطرہ ہے،
تو ان دونوں صورتوں میں نل بندی جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔
شرح مسلم ۳ صفحہ ۸۸۸
ضبط تولید کا ایک طریقہ شرعاً ممنوع ہے، اور وہ ہے نَسْبندی۔
اس عمل میں مرد کی جن نالیوں سے تولید جرثومہ گزرتے ہیں ان نالیوں کو کاٹ کر باندھ دیا جاتا ہے۔ اس عمل کے بعد مرد بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے۔
نسبندی سے مرد بانجھ ہو جاتا ہے، اور مرد کو اپنے آپ کو بانجھ کر لینا جائز نہیں ہے، کیونکہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں ہے۔
شرح مسلم جلد سوم صفحہ ۸۸۸
مگر نسبندی مرد کے لیے جائز نہیں ہے، ہاں عورت کے لیے مذکورہ صورتِ حال میں جائز ہے۔
عورت اس عمل یعنی نسبندی کروانے کے بعد بھی اس کی جنسی خواہش ختم نہیں ہوتی ہے، یہ تحقیق سے ہم نے معلوم کیا ہے (اکبری)
استقرار حمل کو روکنے کے لیے گولیاں کھائی جائیں،
(کنڈوم) یا copreti کا استعمال
استقرار حمل کو روکنے کے لیے گولیاں کھائی جائیں یا سائنسی (condom) copreti کا استعمال کیا جائے۔ ان میں سے کوئی چیز حمل سے روکنے کا یقین نہیں ہے، بسا اوقات دوائیں اور میتھڈز یقیناً اثر نہیں کرتی۔ بعض اوقات ان کے استعمال کے باوجود قطرات رحم میں چلے جاتے ہیں اور حمل ہو جاتا ہے۔
بعض اوقات copreti کے استعمال کے باوجود حمل ہو جاتا ہے، اور بعض اوقات کنڈوم پھٹ جاتا ہے اور قطرے رحم میں چلے جاتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جس پانی سے بچہ پیدا ہونا ہے اگر تم اس کو پتھر پر بھی ڈال دو تو اللہ تعالیٰ اس سے بچہ پیدا کر دے گا۔ اور یہ بارہا مشاہدہ ہوا کہ ضبط تولید کے تمام ذرائع استعمال کرنے کے باوجود بچے پیدا ہو جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں ان تمام چیزوں کے مضر اثرات بہت زیادہ ہے اور انفیکشن کی شکایت عام ہیں، اور کھانے والی گولیاں سے سنا گیا ہے کہ چھاتی کا کینسر ہو جاتا ہے۔
انسان جب بھی اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے فطری اور طبعی نظام سے ہٹ کر کوئی کام کرے گا مشکلات میں گرفتار ہوگا، اس لیے ناگزیر حالات کے علاوہ ضبط تولید سے احتراز کیا جانا چاہیے۔
سخت مجبوری کی حالت میں کہ اب کوئی اور راستہ نہیں ہے اور عورت کو جان کا خطرہ لاحق ہے اور ماہرین نے نسبندی کروانے کا کہا ہے تو پہلے دو تین مسلمان ڈاکٹر سے بھی مشورہ لیں وہ بھی کہہ دیں کہ اس کے علاوہ کوئی علاج نہیں ہے تب نسبندی کروانا جائز ہیں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا ﴿سورہ النساء 29) ترجمہ اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو۔ بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔
وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚ ترجمہ اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑھو (سورہ البقرہ 195)حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اگر تم میں سے کوئی کسی مشکل حالات میں ہو تو اسے چاہیے کہ وہ دعا کرے کہ اللہ اسے اس سے نجات دے، نہ کہ وہ اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاک کرے۔"
(صحیح بخاری، کتاب المرضى، حدیث نمبر: 5671) رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اگر تم میں سے کوئی کسی مشکل حالات میں ہو تو اسے چاہیے کہ وہ دعا کرے کہ اللہ اسے اس سے نجات دے، نہ کہ وہ اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاک کرے۔"
(صحیح بخاری، کتاب المرضى، حدیث نمبر: 5671)اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خود کو ہلاکت یا تباہی میں ڈالنے سے منع فرمایا ہے۔ اس کا تعلق نہ صرف خودکشی جیسے سنگین عمل سے ہے بلکہ کسی بھی ایسی حرکت سے ہے جو انسان کو جسمانی، روحانی، یا معاشی طور پر تباہ کر سکتی ہو۔ اس کے بجائے، مشکل حالات میں صبر اور دعا کی تلقین کی گئی ہے۔
خلاصہ کلام ہم قرآن وحدیث کی روشنی میں ایسی عورت جس کے متعلق ماہر ڈاکٹروں نے یہ بتایا ہو کہ اگر نسبندی نہیں کروایی تو عورت کو جان کا خطرہ ہے تب ہی اجازت ہے ورنہ اسلام میں اس کی ہرگز اجازت نہیں ہے واضح رہے ہر شخص یہ فتویٰ پڑھ کر نسبندی کا فیصلہ نہیں کر سکتا بلکہ ایسے حالات میں مفتیان عظام سے رابطہ ضروری ہے ان کے حکم کے مطابق عمل کرنا چاہئے اگر آپ چاہیں تو ایسے نازک معاملہ میں دارالافتاء گلزار طیبہ سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہے
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ایم جے اکبری دارالافتاء گلزار طیبہ
مولانا علی بخش صاحب اکبری نایب مفتی دارالافتاء گلزار طیبہ
مفتی ایم جے اکبری کے فتویٰ پر تاثرات ایم جے اکبری صاحب کا فتویٰ نسبندی کے شرعی حکم کے حوالے سے ایک جامع، مدلل اور قرآن و حدیث کی روشنی میں نہایت متوازن رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس فتویٰ کی خوبصورتی اس کی وضاحت، گہرائی، اور شرعی احکام کے ساتھ معاصر طبی مسائل کو ملحوظ رکھنے میں ہے۔ درج ذیل نکات اس فتویٰ کے نمایاں پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں:قرآن و حدیث سے استدلال:
فتویٰ میں سورہ البقرہ (2:195) اور سورہ النساء (4:29) کی آیات کے ساتھ ساتھ صحیح بخاری کی حدیث (حدیث نمبر: 5671) کا حوالہ دیا گیا ہے، جو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کرتی ہیں۔ اس سے فتویٰ کی شرعی بنیاد مضبوط ہوتی ہے۔ خاص طور پر سورہ الانعام (6:151) کا حوالہ، جو تنگی رزق کے خوف سے اولاد کو ہلاک کرنے سے منع کرتی ہے، نسبندی کی ناجائز صورتوں کو واضح کرتا ہے۔ یہ استدلال نہ صرف علمی ہے بلکہ عام فہم انداز میں پیش کیا گیا ہے۔نسبندی کی جائز و ناجائز صورتوں کی تفصیل:
مفتی صاحب نے نسبندی کی ناجائز صورتوں (مثلاً تنگی رزق کا خوف یا لڑکیوں کی پیدائش سے احتراز) کو قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح طور پر حرام قرار دیا۔ اس کے برعکس، جائز صورتوں (مثلاً عورت کی جان کو خطرہ یا شدید بیماری کا خدشہ) کو تفصیل سے بیان کیا گیا۔ یہ تقسیم نہایت حکیمانہ اور شریعت کے تقاضوں کے مطابق ہے، جو شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے انسانی مجبوریوں کا لحاظ رکھتی ہے۔طبی مشورے کی اہمیت:
فتویٰ میں ماہر ڈاکٹروں کے مشورے کو اہمیت دی گئی ہے، خاص طور پر یہ ہدایت کہ نسبندی سے قبل دو یا تین مسلمان ڈاکٹروں سے تصدیق کرائی جائے۔ یہ نقطہ فتویٰ کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرتا ہے اور شرعی احتیاط کو برقرار رکھتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مفتی صاحب نے نہ صرف شرعی احکام بلکہ جدید طبی سائنس کے حقائق کو بھی ملحوظ رکھا۔ضبط تولید کے دیگر طریقوں کی وضاحت:
فتویٰ میں عزل، کنڈوم، گولیوں، اور دیگر طریقوں کے شرعی جواز کو بیان کیا گیا، لیکن ان کے ممکنہ مضر اثرات (مثلاً انفیکشن یا چھاتی کے کینسر کا خطرہ) کو بھی اجاگر کیا گیا۔ یہ نقطہ فتویٰ کو ایک حقیقت پسندانہ اور ذمہ دارانہ رہنمائی بناتا ہے، جو لوگوں کو غیر ضروری خطرات سے خبردار کرتا ہے۔مردوں کے لیے نسبندی کی ممانعت:
مردوں کے لیے نسبندی کو حرام قرار دینا، کیونکہ یہ انسان کے جسم کے فطری نظام کو مستقل طور پر تبدیل کرتا ہے، ایک اہم شرعی اصول کی پاسداری کو ظاہر کرتا ہے کہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں۔ یہ فیصلہ اسلامی فقہ کی گہری سمجھ اور احتیاط کی عکاسی کرتا ہے۔مفتیان عظام سے رجوع کی ترغیب:
فتویٰ کے آخر میں یہ ہدایت کہ ہر شخص اسے پڑھ کر خود فیصلہ نہ کرے بلکہ مفتیان عظام سے رجوع کرے، شرعی احتیاط اور عوام کی رہنمائی کے لیے ایک قابل تحسین اقدام ہے۔ یہ نازک معاملات میں انفرادی فتویٰ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔چند ۔نتیجہ:مفتی ایم جے اکبری صاحب کا یہ فتویٰ نہ صرف شرعی احکام کی روشنی میں ایک واضح رہنمائی ہے بلکہ معاشرتی اور طبی حقائق کو بھی خوبصورتی سے سموئے ہوئے ہے۔ اس کا انداز عام فہم، متوازن، اور شریعت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ یہ فتویٰ ان لوگوں کے لیے ایک عظیم رہنما ہے جو اس نازک معاملے میں شرعی حدود کے اندر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور اس فتویٰ کو عوام کے لیے نفع بخش بنائے۔ آمین۔واللہ اعلم بالصواب
دعا کے ساتھ،
[خادم علی بخش اکبری ]
تاثرات مولانا محمّد عارف صاحب قادری
! مفتی ایم جے اکبری صاحب کا یہ فتویٰ نسبندی کے نازک مسئلے پر ایک جامع اور روشن تحقیق پیش کرتا ہے۔ ان کی جانب سے قرآن و حدیث کی روشنی میں دلائل کے ساتھ طبی ماہرین کی رائے کو بھی اہمیت دینا قابلِ تحسین ہے۔
تاثرات:
یہ فتویٰ کئی اعتبار سے قابلِ غور ہے:
* تفصیلی استدلال: مفتی صاحب نے نسبندی کے جواز اور عدم جواز کی مختلف صورتوں کو علامہ غلام رسول سعیدی کی شرح مسلم کے حوالے سے نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ رزق کی تنگی کے خوف یا لڑکیوں کی پیدائش سے بچنے کی جاہلانہ سوچ کے تحت نسبندی کو سختی سے منع کیا گیا ہے، جو کہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
* مجبوری کی صورت میں رعایت: فتویٰ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں عورت کی سخت مجبوری اور جان کے خطرے کی صورت میں نسبندی کو نہ صرف جائز قرار دیا گیا ہے بلکہ واجب قرار دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کی اس بنیادی تعلیم کی عکاسی کرتا ہے کہ انسانی جان سب سے مقدم ہے اور ضرورت کے وقت شرعی احکام میں نرمی پیدا کی جا سکتی ہے۔
* دیگر ضبط تولید کے ذرائع پر روشنی: فتویٰ میں عزل کے علاوہ دیگر مروجہ ضبط تولید کے طریقوں (گولیاں، انجیکشن، کریم، کنڈوم) کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور ان کے ممکنہ نقصانات اور غیر یقینی اثرات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس سے ان طریقوں کے استعمال میں احتیاط برتنے کی تلقین ملتی ہے۔
* مرد اور عورت کے لیے الگ حکم: یہ فتویٰ مرد اور عورت کے لیے نسبندی کے حکم میں واضح فرق کرتا ہے۔ مرد کے لیے نسبندی کو ناجائز قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس سے مردانہ صلاحیت کا دائمی خاتمہ ہوتا ہے، جبکہ عورت کے لیے مخصوص حالات میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔
* احتیاط اور ماہرین کی رائے پر زور: مفتی صاحب نے اس حساس معاملے میں صرف ایک ڈاکٹر کی رائے پر اکتفا نہ کرنے بلکہ دو تین مسلمان ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ کرنے اور دارالافتاء سے رہنمائی حاصل کرنے کی تلقین کی ہے۔ یہ فتویٰ کے شرعی اصولوں پر سختی سے کاربند ہونے کا ثبوت ہے۔
* قرآنی آیات اور احادیث سے استدلال: فتویٰ میں قرآنی آیات (سورہ النساء: 29، سورہ البقرہ: 195) اور حدیث نبویؐ (صحیح بخاری: 5671) کا حوالہ دے کر اپنے موقف کو مضبوط بنایا گیا ہے، جس سے اس کی شرعی حیثیت اور بھی واضح ہوتی ہے۔
مجموعی طور پر، مفتی ایم جے اکبری صاحب کا یہ فتویٰ نسبندی کے مسئلے پر ایک متوازن، جامع اور شرعی اصولوں کے مطابق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے خاص طور پر اہم ہے جو اس نازک صورتحال سے دوچار ہیں اور شرعی حکم جاننا چاہتے ہیں۔ فتویٰ میں طبی ماہرین کی رائے اور عورت کی مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے جو حل پیش کیا گیا ہے وہ یقیناً قابلِ عمل اور شریعت کے منشاء کے مطابق ہے۔ تاہم، فتویٰ میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ہر شخص خود سے اس نتیجے پر نہ پہنچے بلکہ مفتیان عظام سے رجوع کرے، جو اس مسئلے کی حساسیت اور اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
تاثرات مولانا یوسف اکبری جسدن
مفتی ایم جے اکبری صاحب کا یہ فتویٰ ایک عمدہ اور جامع بیان ہے جو اسلام کی شرعی تعلیمات کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ ان کے بیان کردہ نکات قابل غور اور رہنما اصول فراہم کرتے ہیں، خاص طور پر ایسے حساس مسئلے کے بارے میں جیسے نسبندی۔ اس فتویٰ میں درج ذیل پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے:
---
### 1. **شرعی اصول اور حدود کی وضاحت**
مفتی صاحب نے قرآن و حدیث کی روشنی میں نہایت تفصیل سے نسبندی کی جائز اور ناجائز صورتوں کو بیان کیا ہے۔ قرآن مجید میں **حرمت رزق کی بنیاد پر نسبندی کے ناجائز ہونے کی وضاحت** اور اس کے برعکس بیماری یا جان کے خطرے کی صورت میں اس کی گنجائش کو جائز قرار دینا اسلامی تعلیمات کے اصولوں کے مطابق ہے۔
---
### 2. **ماہرین سے مشورے کی تاکید**
مفتی صاحب نے زور دیا کہ مجبوری اور جان کے خطرے جیسے معاملات میں نسبندی کروانے سے پہلے متعدد ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ لینا ضروری ہے، تاکہ یہ بات یقینی ہو کہ اس کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ یہ حکمت پر مبنی رہنمائی ہے تاکہ کوئی شخص غیر ضروری طور پر ایسے عمل کی طرف نہ جائے۔
---
### 3. **اخلاقی اور فقہی مسائل کی نشاندہی**
انہوں نے اخلاقی اور شرعی حدود کی نشاندہی کی، جیسے فطری نظام سے ہٹ کر کام کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل اور مشقت۔ ساتھ ہی ساتھ نبی کریم ﷺ کے ارشادات کے ذریعے، خود کو ہلاکت میں ڈالنے کی ممانعت اور صبر و دعا کی تلقین کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔
---
### 4. **عورتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کا خیال**
مفتی صاحب نے خاص طور پر عورتوں کے تحفظ پر زور دیا ہے۔ اس بات کا ذکر کہ اگر مزید بچوں کی پیدائش عورت کی صحت کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے، تو نسبندی جائز بلکہ واجب ہو سکتی ہے۔ یہ فتویٰ عورتوں کی صحت اور زندگی کے تحفظ کو اسلامی اصولوں کے دائرے میں رکھتے ہوئے پیش کرتا ہے۔
---
### 5. **جامع اور متوازن تحقیق**
امام غزالی اور علامہ غلام رسول سعیدی جیسے علمائے کرام کی تحقیق کو شامل کر کے اس مسئلے کو علمی طور پر مضبوط اور متوازن بنایا گیا ہے۔ ان کے دلائل سے فتویٰ کو مزید پختہ بنایا گیا۔
---
### مجموعی تاثرات
یہ فتویٰ دین اسلام کے جامع اور مکمل ضابطہ حیات ہونے کا عملی ثبوت ہے۔ اس میں شرعی اور اخلاقی حدود کو سامنے رکھتے ہوئے، ایک ایسا لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے جو نہ صرف دین بلکہ زندگی کے عملی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
**دعا:** اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کی کوششوں کو قبول فرمائے اور ہمیں شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
Comments
Post a Comment