راکھی باندھنا حرام ہے

 اسلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ 


امید ہے آپ خیریت سے ہونگے ❤️ 


مفتی صاحب کی بارگاہ میں سوال ہے 


 ١ -  راکھھی ( رکشابندھن )  باندھنا کیسا ہے 

خود کو باندھنا کیسا ہے ؟ اور دوسروں کو باندھنا کیسا ہے 

٢ - کسی غیر مسلم کو بھائی بنانا کیسا ہے ؟

 ان کی جو رسم ہے وہ سب کرنا جیسے میتھائی دینا ، ناریل دینا وغیرہ ۔۔۔

یہ سب کرنا کیسا ہے اس کا قرآن اور حدیث سے جواب دیں بڑی مہربانی ہوگی.

نام :  شیر محمد قادری ،  راجستھان

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 

 *الجواب وباللہ التوفیق* 


جس نے باندھا اور جس نے بندھوایا سب فاسق و مستحقِ عذابِ نار ہوئے اور ان سب پر توبہ لازم ہے۔ جیسا کہ حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ:


> "جن مسلمان عورتوں نے ہندوؤں کو یہ ڈورا باندھا یا جن مسلمان مردوں نے ہندو عورتوں سے یہ ڈورا بندھوایا، فاسق و فاجر گنہگار مستحقِ عذابِ نار ہوئے لیکن کافر نہ ہوئے اس لیے کہ یہ راکھی بندھن پوجا نہیں، ان کا قومی تہوار ہے اور ان کا یہ قومی شعار ہے، مذہبی شعار نہیں۔"

(فتاویٰ شارح بخاری: کتاب العقائد، ج ۲، ص ۵۶۶)




🔹 *وضاحت* :  🎤

راکھی (رکشابندھن) دراصل ہندو قوم کا ایک قومی تہوار ہے جس میں عورتیں مردوں کے ہاتھ پر دھاگا باندھ کر اسے "بھائی" بناتی ہیں اور اس کے بدلے میں وہ مرد عورت کو "تحائف" دیتا ہے۔ یہ ایک خالص ہندوانہ رسم ہے، نہ اسلام میں اس کی کوئی اصل ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے لیے اس میں کوئی دینی یا سماجی فائدہ۔ مسلمان کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنی حقیقی بہنوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، ان کے حقوق ادا کرے۔ اس کے لیے کسی ہندو رسم و رواج کی ضرورت نہیں۔


لہٰذا:


راکھی باندھنا یا بندھوانا فسق و حرام ہے۔


یہ فعل کفر نہیں مگر سخت گناہ ہے اور اس پر توبہ واجب ہے۔






 *مزید احکام:* 


کسی مشرک کو "بھائی" بنانا یا اس سے دلی دوستی رکھنا حرام ہے۔


قرآنِ کریم میں ہے:



> "یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْکٰفِرِیْنَ أَوْلِیَاءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ أَتُرِیْدُوْنَ أَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا مُبِیْنًا"

(النساء: 144)




ترجمۂ کنزالایمان:

"اے ایمان والو! کافروں کو دوست نہ بناؤ مسلمانوں کے سوا، کیا یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کے لیے کھلی حجت قائم کر لو؟"


ان کے تہوار کی چیزیں (مٹھائی، ناریل وغیرہ) اسی دن لینا ناجائز ہے، البتہ اگر وہ دوسرے دن دے تو لینے میں حرج نہیں، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:



> "اس روز نہ لے اور اگر دوسرے روز دے تو لے لے، نہ یہ سمجھ کر کہ یہ ان خبثاء کے تہوار کی مٹھائی ہے بلکہ مالِ موذی نصیبِ غازی سمجھے۔"

(الملفوظات، حصہ اول، ص 163، مکتبۃ المدینہ)







 *نوٹ* :  👇

فی زمانہ ملکی حالات مسلمانوں کے لیے نامناسب ہیں، اس لیے بظاہر تعلقات میں ظاہری میل جول رکھنا مصلحت کی بنا پر گنجائش ہے، مگر دل سے ان کے ساتھ محبت اور دلی دوستی رکھنا ناجائز ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ اپنی پہچان اور اسلامی شعار کو مضبوطی سے تھامے رکھے۔





واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

✍️ ابو احمد ایم جے اکبری

دارالافتاء گلزار طیبہ


Comments

Popular posts from this blog

जो निकाह पढ़ाए वहीं दस्तखत करे

کیا حضور پر جادو کا اثر ہوا تھا