عورتوں کا جماعت کرنا اور مردوں کا نوافل کی جماعت ؟
*السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ عورت تروایح کی امامت کروا سکتی ہے یا نہیں رہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں المستفتی عبداللہ*
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق
عورت عورتوں کی امام ہو سکتی ہے مگر مکروہ ہے مفتی امجد علی اعظمی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں عورت بھی امام ہو سکتی ہے اگرچہ مکروہ ہے (بہار شریعت حصہ سوم صفحہ 565 )
صاحب ہدایہ فرماتے ہیں عورت کی امامت خواہ فرض نماز میں ہو یا نفل نماز میں مکروہ تحریمی ہے اور یہ کراہت عورتوں کی نفل کی نماز کی جماعت زیادہ شدید ہے کیونکہ نفل کی جماعت اعلان کے ساتھ مردوں کے لیے جائز نہیں تو عورتوں کے لیے کیسے جائز ہو سکتی ہے حدیث میں ہے لا خیر فی جماعتہ النساء یعنی عورتوں کی جماعت میں کوئی خیر نہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عورت امامت نہ کرے
(فیوضات رضویہ تشریحات ہدایہ جلد دوم صفحہ 302 ) (درمختار ردالمتار جلد دوم صفحہ 467 ) میں ہے عورتوں کی جماعت مکروہ تحریمی ہے اگرچہ تراویح میں ہو سوائے نماز جنازہ کے !
خلاصہ کلام عورتوں کی جماعت کسی بھی نماز میں جائز نہیں سوائے جنازہ کے البتہ اب حالات کے مدنظر رکھتے ہوئے عورتیں اس طرح مل کر نماز ادا کرے کہ ایک عورت صف میں نماز پڑھائے اور باقی عورتیں اس کے ساتھ ساتھ نماز پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے مطلق عورتوں کو مل کر نماز پڑھنے سے روکا گیا تو یہ خدشہ ظاہر ہے کہ وہ پھر گھروں میں نماز نہ پڑھے اگر سب مل کر پڑھیں گے تو پڑھ لیں گے تو ایسے حالات میں بےجا سختی نہ کرے حدیث میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک دین آسان ہے اور اس میں جو شخص دین میں بے جا سختی برتے گا دین اس پر غالب آ جائے گا الخ (جامع الاحادیث جلد اول صفحہ 39)
لہٰذا عورت امامت تو نہیں کر سکتی مگر عورتوں کے بیچ میں کھڑی ہو کر نماز پڑھے اور تمام عورتیں اس کے ساتھ ساتھ نماز پڑھے تو اس سے نہ روکے گے البتہ امام ہرگز نہ بنے کہ یہ دین میں حد سے تجاوز کرنا ہوگا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دین میں حد سے تجاوز کرنے سے بچو کہ تم سے پہلے لوگ دین کی حدود پار کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے (جامع الاحادیث جلد اول صفحہ 40 ) اور ہدایہ کے حوالے سے مردوں کو بھی نفل جماعت سے مکروہ لکھا ہے اس پر ہم نے حالات کے مدنظر رکھتے ہوئے جواز کا فتوی دیا ہے
*نوافل کی جماعت تداعی کے ساتھ مکروہ ہے بہارشریعت وغیرہ اور اعلی حضرت محدث بریلوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کراہت صرف تنزیہی ہے یعنی خلاف اولی نہ تحریمی کہ گناہ و ممنوع ہو *فتاوی رضویہ جلد 7 صفحہ 431* اور حضرت علامہ غلام رسول سعدی رحمۃاللہ علیہ نے *شرح مسلم جلد اول صفحہ 411* میں جائز لکھا ہے اور یہ ہی بہتر ہے کہ آج کل عوام کا حال ہم جانتے ہیں کہ انھیں علم نہیں ہے تو جماعت سے نوافل پڑھتے ہیں تو انھیں منع نہ کیا جائے کہ اللہ کا ذکر کر رہے ہیں *واللہ اعلم و رسولہ* *فقیر ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی عطاری* *تاریخ 8 مارچ 2022 بروز اتوار
Comments
Post a Comment