جاہل کا واعظ کہنا ؟
19/03/2022
السلام علیکم۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و شرع متین درج ذیل مسلئہ میں کہ کسی شہر کی سنی جامع مسجد میں مقررہ امام جو کہ حافظ قرآن بھی ہیں ان کی موجودگی میں جمعہ کی نماز سے قبل جو وعظ و نصیحت بیان ہوتا ہے وہ بیان کوئی ایسا شخص کرے جو نا عالم ہو نا حافظ تو کیا ایسے شخص کا بیان کرنا اور عوام کا سننا اور ٹرسٹیان کا اجازت دینا کیسا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ نوازش ہوگی۔ المستفتی۔نثار احمد
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق
غیر عالم کو واعظ کہنا حرام ہے حدیث میں تو فاسق کو بھی واعظ کہنا جائز نہیں حضرت ہرم بن حیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں فاسق عالم سے بچو جو اپنے علم کے مطابق بات کرنا ہے لیکن اس کا عمل گناہ پر ہوتا ہے ایسا شخص لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے جس کی وجہ سے لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں (مختلف مسائل حصہ اول صفحہ 11 بحوالہ دارمی شریف ) سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کا سوال ہوا کہ غیر عالم کو واعظ کہنا؟
فرمایا غیر عالم کو واعظ کہنا حرام ہے (الملفوظ حصہ اول صفحہ 58 )
پھر جبکہ مسجد کا امام بھی صرف حافظ ہے تو اسے بھی واعظ کہنے کی اجازت نہیں ہاں اگر حافظ اتنا علم رکھتا ہو کہ ضرورت کے مسائل بغیر کسی کی مدد کے خود کتابوں سے نکال سکتا ہوں تو اسے واعظ کہنے کی اجازت ہے اور با صلاحیت امام کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے عالم کو بھی واعظ کہنے کا حق نہیں ہے ہاں امام کی اجازت سے
لہٰذا مسلمانوں کو چاہے کہ وہ جاہل شخص کو واعظ کہنے سے روکے ورنہ وہ گنہگار ہو گے ! اللہ تعالٰی فرماتا ہے ۔اور تم نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مدد کرو، گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڑرتے رہو بیشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے (سورت المائدہ آیت نمبر 2 ) واللہ اعلم و رسولہ
کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی عطاری
دارالافتاء فیضان مدینہ آنلائن
تاریخ 19 مارچ 2022 بروز ہفتہ
Comments
Post a Comment