کفار کے بچے جنتی یا جہنمی؟
محمد توفیق ابن اسماعیل
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسلے میں کے کافر کے گھر پر بچہ پیدا ہو کر انتقال کر گیا تو کیا اسے مسلمان شمار کیا جاے گا
جزاک اللہ خیرا
الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق
کافر کے بچے نابالغ فوت ہوئے تھے تو وہ کافر سمجھے جائیں گے کیونکہ حدیث میں ان کے جہنمی یا جنتی ہونے کی دونوں طرح کی روایت ملتی ہے احادیث اس بارے میں مختلف ہیں، اسی وجہ سے علماء کی آراء بھی اس بارے میں مختلف ہیں، بعض علماء نے فرمایا کہ : اگربلوغت کے بعد ان کا مسلمان ہونا اللہ کے علم میں ہوگا تو جنت میں جائیں گے اور اگربلوغت کے بعد ان کاکافرہونا اللہ کے علم میں ہوگا تو وہ جہنم میں جائیں گے۔ البتہ امام نووی رحمہ اللہ اور دیگرمحققین نے اس کوراجح قراردیاہے کہ اولادکفارجوبلوغت سے پہلے دنیاسے چل بسے وہ اہل جنت میں سے ہیں۔
فتاوی فقہ ملت جلد اول صفحہ 32 میں ہے کافر کےنابالغ بچوں کے جنتی و جہنمی ہونے میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہے بعض کہتے ہیں جنتی ہے اور بعض کہتے ہیں جہنمی اسی اختلاف کی بنیاد پر امام اعظم ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ نے خاموشی اختیار کی ہے! اس مسئلے پر علامہ غلام رسول سیعدی رحمت اللہ علیہ نے تفسیر تبیان القرآن میں مفصل بحث کی ہے!
امام حافظ یوسف بن عبداللہ بن عبدالبر مالکی قرطبی متوفی ٤٦٣ ھ لکھتے ہیں :-
بالغ ہونے سے پہلے فوت ہونے والے بچوں کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں :-
١۔ تمام بچے خواہ وہ مومنوں کے بچے ہوں یا کافروں کے جو بلوغت سے پہلے فوت ہوجائیں وہ اللہ تعالی کی مشیت پر موقوف ہیں وہ چاہے تو ان پر حم فرمائے اور وہ چاہے تو ان کو عذاب دے اور یہ سب اس کا عدل ہے اور اسی کو علم ہے ان بچوں نے بڑے ہو کر کیا کرنا تھا۔-
٢۔ اکثر علماء کا مذہب یہ ہے کہ مسلمانوں کے بچے جنت میں ہوں گے اور کفار کے بچے اللہ تعالی کی مشیت پر موقوف ہیں۔-
٣۔ تمام بچوں کا دنیا اور آخرت میں وہ حکم ہوگا جو ان کے آباء کا حکم ہوگا مومنوں کے بچے اپنے آباء کے ایمان کے حکم سے مومن قرار پائیں گے اور کافروں کے بچے اپنے آباء کے حکم سے کافر قرار پائیں گے سو مسلمانوں کے بچے جنت میں ہوں گے اور کافروں کے بچے دوزخ میں ہوں گے۔-
٤۔ مشرکین کے بچے اہل جنت کے خادم ہوں گے۔-
٥۔ ان بچوں کا آخرت میں امتحان لیا جائے گا۔-
٦۔ مسلمانوں کی اولاد ہو یا کافروں کی جب وہ بلوغت سے پہلے فوت ہوگی تو وہ سب جنت میں ہوگی۔-
ان تمام نظریات کے حاملین نے اپنے اپنے موقف پر احادیث اور آثار سے استدلال کیا ہے۔ (التمہید ج ٧، ص ٢٥٥، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ١٤١٩)-
نابالغ اولاد کا اللہ تعالی کی مشیت پر موقوف ہونا :-
حماد، ابن المبارک اور اسحاق کا مذہب یہ ہے کہ مومنوں کے بچے ہوں یا کفروں کے وہ آخرت میں اللہ تعالی کی مشیت پر موقوف ہیں۔-
حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ امام مالک کا بھی یہی مزہب ہے۔ (فتح الباری ج ٣، ص ٢٤٦، ) اس کی دلیل یہ ہے :-
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی، یا نصرانی بنا دیتے ہیں جیسے تم دیکھتے ہو کہ جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے کیا تم اس میں کوئی نقص دیکھتے ہو ؟ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ یہ بتائیں کہ جو شخص بالغ ہونے سے پہلے فوت ہوجائے ؟ آپ نے فرمایا اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے کہ وہ (بڑے ہوکر) کیا کرنے والے تھے۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : ٦٥٩٩، ٦٦٠٠، صحیح مسلم، رقم الحدیث : ٢٦٥٨، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٤٧١٤، موطا امام مالک رقم الحدیث : ١٦٥، مسند احمدر قم الحدیث : ٧٣٢١، عالم الکتب، التمہید ج ٧ ص ٢٥٥، ٢٥٦، المعجم الکبیر ج ١٢، ص ٥٢ )-
حضرت ام المومنین حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس انصار کا ایک بچہ لایا گیا جس پر نماز پڑھی جانی تھی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس بچہ کے لیے سعادت ہو یہ جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے۔ اس نے نہ کوئی برا کام کیا نہ اس کے متعلق جانتا تھا، آپ نے فرمایا : اے عائشہ ! اس کے علاوہ اور بھی کچھ ہوسکتا ہے، اللہ تعالی نے جنت کو پیدا کیا اور کچھ لوگوں کو جنت کے لیے پیدا کیا اور جس وقت ان کو جنت کے لیے پیدا کیا اس وقت وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے اور اللہ تعالی نے دوزخ کو پیدا کیا اور جس وقت ان کو دوزخ کے لیے پیدا کیا اس وقت وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٦٢، سنن ابو داؤد، رقم الحدیث : ٤٧١٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٩٤٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٨٢، مسند احمد ج ٦، ص ٢٠٨، التمہید ج ٧ ص ٢٦٠ )-
مسلمانوں کے بچوں کا جنت میں ہونا :-
بعض اصحاب شافعی اور ابن حزم کا مسلک یہ ہے کہ مسلمانوں کے بچے جنت میں ہوں گے اور کفار کے بچے اللہ تعالی کی مشیت پر موقوف ہیں۔ (فتح الباری ج ٣ ص ٢٤٦) ان کی دلیل یہ ہے :-
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمانوں میں سے جس کے بھی تین نابالغ بچے فوت ہوجائیں اللہ تعالی ان بچوں کو اور اس کے والد کو اپنے فضل اور رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا، قیامت کے دن ان کو لایا جاے ئ گا اور ان سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہوجاؤ وہ کہیں گے نہیں، حتی کہ ہمارے آبا بھی جنت میں داخل ہوں، ان سے کہا جائے گا تم اور تمہارے آبا میرے فضل اور رحمت سے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث : ١٦٠٥، مسند احمد ج ٢ ص ٤٧٣، التمہید ج ٧، ص ٢٦٥، کنز العمال، رقم الحدیث : ٦٥٦٠، الکامل لابن عدی ج ٥ ص ٢٦٣، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ١٤١٨ ھ)-
معاویہ بن قرۃ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اپنے بیٹے کو لے کر آیا، آپ نے فرمایا کیا تم اس بچے سے محبت کرتے ہو ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ : آپ سے بھی اللہ اتنی محبت رکھے جتنی محبت میں اس بچے سے رکھتا ہوں۔ پھر وہ بچہ فوت ہوگیا، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو کئی دن تک نہیں دیکھا آپ نے اس کے متعلق پوچھا وہ کہاں ہے، صحابہ نے کہا یا رسول اللہ اس کا بچہ فوت ہوگیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے فرمایا : کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تم جنت کے جس دروازہ سے بھی داخل ہونا چاہو تمہارا بچہ بھاگتا ہوا آئے اور تمہارے لیے وہ دروازہ کھول دے، صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! آیا یہ صرف اس کی خصوصیت ہے یا یہ ہم سب کے لیے ہے ؟ آپ نے فرمایا بلکہ یہ تم سب کے لیے ہے۔ (سنن النسائی، رقم الحدیث : ١٨٦٩، مسند احمد ج ٥، ص ٣٥، المستدرک، ج ١ ص ٣٨٤، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٣٥٤، مجمع الزوائد، ج ٣ ص ٩، التمہید ج ٧ ص ٢٦٥ )-
مشرکین کے بچوں کا دوزخ میں داخل ہونا :-
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ مسلمانوں کے بچے کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا اے عائشہ جنت میں، پھر میں نے آپ سے سوال کیا کہ مشرکین کے بچے قیامت کے دن کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا دوزخ میں، حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ انہوں نے اعمال کا زمانہ نہیں پایا اور ان پر قلم تکلیف جاری نہیں ہوا ؟ آپ نے فرمایا تمہارا رب ہی زیادہ جاننے والا ہے کہ وہ (بڑے ہوکر) کیا عمل کرنے والے تھتے، اور اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے اگر تم چاہو تو میں تمہیں ودزخ میں ان کے رونے اور چلانے کی آواز سنا دوں۔-
حافظ ابن عبد البر فرماتے ہیں اس حدیث کا ایک روای بہیتہ ہے اس جیسے راوی کی حدیث سے استدلال نہیں کیا جاتا۔ بالفرض اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو وہ اس جیسی دیگر احادیث کی طرح خصوصیت کی متحمل ہے۔ (تمہید ج ٧، ص ٢٧١، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٩ ھ)-
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کو امام احمد کے حوالے سے لکھا ہے اور یہ کہا ہے کہ اس کی سند کا ایک راوی ابو عقیل متروک ہے۔ (فتح الباری ج ٣ ص ٢٤٦، مطبوعہ لاہور ١٤٠١ ھ)-
مشرکین کی اولاد کا اہل جنت کا خادم ہونا :-
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مشرکین کی اولاد اہل جنت کی خادم ہوگی۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٢٩٩٦، یہ حدیث حضرت سمرہ بن جندب سے بھی مروی ہے، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٢٠٦٦، تمہید : ج ٧، ص ٢٦٨ )-
میدان قیامت میں بچوں اور دیگر کا امتحان ہونا :-
حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں جو شخص زمانہ فترت میں فوت ہوگیا اور کم عقل اور بچہ کے متعلق آپ نے فرمایا جو شخص زمانہ فترت میں ہوگیا تھا وہ قیامت کے دن کہے گا نہ میرے پاس کتاب آئی اور نہ رسول آیا پھر آپ نے یہ آیت پڑھی :-
ولو انا اھلکنھم بعذاب من قبلہ لقالوا ربنا لو لا ارسلت الینا رسولا۔ (طہ : ١٣٤) اور اگر ہم اس سے پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کردیتے تو یقینا یہ کہہ اٹھتے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہمارے پاس اپنا رسول کیوں نہ بھیجا (تاکہ ہم تیری آیتوں کی اتباع کرتے، اس سے پہلے ہم ذلیل و خوار ہوتے)-
آپ نے پوری آیت پڑھی۔-
اور کم عقل کہے گا اے میرے رب ! تو نے میری کامل عقل کیوں نہ بنائی تاکہ میں خیر اور شر کو سمجھتا اور نابالغ بچہ کہے گا اے میرے رب ! میں نے تو عمل کرنے کا زمانہ ہی نہ پایا، آپ نے فرمایا پھر ان کے لیے دوزخ پیش کی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا اس میں داخل ہوجاؤ جو شخص اللہ کے علم میں نیک ہوگا اور اچھے عمل کرے گا وہ اس میں داخل ہوجائے گا اور جو شخص اللہ کے علم میں شقی ہوگا خواہ وہ عمل کا زمانہ نہ پائے وہ اس میں داخل نہیں ہوگا آپ نے فرمایا : اللہ عزوجل فرمائے گا تم نے میری نافرمانی کی ہے تو اگر میرے رسول تمہارے پاس آتے تو تم ان کی نافرمانی کیوں نہ کرتے۔ (تمہید ج ٧، ص ٢٧٤)-
تمام بچوں کا جنت میں داخل ہونا خواہ مسلمان ہوں یا کافر :-
امام بخاری نے اپنی سند کے ساتھ ایک طویل حدیث روایت کی ہے جس کے آخر میں مذکور ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایک خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا وہ دراز قامت شخص جو باغ میں تھے وہ حضرت ابراہیم ہیں اور جو بچے آپ کے گرد تھے یہ وہ بچے تھے جو فطرت پر فوت ہوگئے، بعض مسلمانوں نے کہا یا رسول اللہ مشرکین کی اولاد بھی ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مشرکین کی اولاد بھی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٠٤٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٧٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢٩٤، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٧٦٥٨، مسند احمد ج ٥، ص ٨، المعجم الکبیر ج ٧ ص ٢٨٦، الترغیب والترہیب ج ١ ص ٣٨٩، التمہید ج ٧ ص ٢٦٩ )-
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت خدیجہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اولاد مشرکین کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا : اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے کہ وہ (بڑے ہوکر) کیا کرنے والے تھے، پھر اسلام کے مستحکم ہونے کے بعد میں نے آپ سے سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی :-
ولا تزر وازرۃ وزر اخری۔ (بنی اسرائیل : ١٥) اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔-
آپ نے فرمایا وہ فطرت پر ہیں یا فرمایا وہ جنت میں ہیں۔ (مسند احمد ج ٦، ص ٨٤، المعجم الکبیر ج ٨ ص ١٠٣، مجمع الزوائد ج ٥، ص ٣١٦، التمہید ج ٧ ص ٢٦٨ )-
خنساء کے چچا بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی جنت میں ہوگا، اور شہید جنت میں ہوگا اور بچہ جنت میں ہوگا اور جس کو زندہ درگور کیا گیا وہ جنت میں ہوگا۔ (سنن ابو داؤد، رقم الحدیث : ٢٥٢١، مسند احمد ج ٥ ص ٥٨، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٥، ص ٣٣٩، المعجم الکبیر ج ١ ص ٢٦٣، التمہید ج ٧ ص ٢٦٦، مجمع الزوائد ج ٤ ص ٣٢١ )-
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انسان کی اولاد میں سے کھیلنے کودنے والوں (بچوں) کے متعلق میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ ان کو عذاب نہ دیا جائے تو اللہ تعالی نے میری یہ دعا قبول فرما لی۔ (مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٣٥٧٠، مجمع الزوائد ج ٧ ص ٢١٩، التمہید ج ٧ ص ٢٦٨ )-
خلاصہ مبحث :-
نابالغ بچوں کے متعلق صحیح مذہب یہی ہے کہ وہ جنت میں ہوں گے اور یہی احادیث صحیحہ کا تقاضا ہے قرآن مجید کی آیات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے اور جو احادیث اس کے خلاف ہیں وہ اس پائے کی نہیں ہیں اور نہ قرآن مجید سے مزاحم ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں یا اس وقت تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے متعلق علم نہیں دیا گیا تھا۔ اور اصحاب فترت کے متعلق بھی صحیح یہی ہے کہ جن لوگوں کی عقل کامل تھی اور ان کو قوت استدلال دی گئی تھی وہ اس بات کا مکلف تھے کہ اس جہان کا کوئی صانع ہے اور وہ صانع واحد ہے اور باقی معتقدات اور احکام شرعیہ کے وہ مکلف نہیں ہیں۔-
خلاصہ بحث ہمیں اس موضوع پر خاموشی اختیار کرنی چاہیے جیسا کہ ہمارے امام اعظم نے توقف کیا ہے اس طرح کے مسائل پوچھنے کے بجائے مسلمانوں ضرورت ہے فرض علم حاصل کرنے کی حلال و حرام کیا ہے اور بالخصوص نماز جیسی اہم عبادت کے مسائل کا جاننا ضروری ہے جس پر عوام تو عوام مسجدوں کے امام کی بھی حالت درست نہیں ہے نماز کے اہم مسائل سے بہت کم واقف ہوتے ہیں! واللہ اعلم و رسولہ
کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی عطاری
دارالافتاء فیضان مدینہ آنلائن
تاریخ 22 مارچ 2022 بروز منگل
Comments
Post a Comment