ایک امام اور ایک مقتدی قعدہ آخر میں اور تیسرا آئے تو ؟

​ایک مقتدی امام کے ساتھ اور دوسرا اس وقت آیا جب امام قعدہ اخیرہ میں؟


دارالافتا۶ - 23/01/2022


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں ایک امام ایک مقتدی ہے'نماز جماعت سے پڑھ رہے ہیں اور ایک دوسرا آدمی آیا امام آگے چلا جائے یا مقتدی پیچھے آجائے اگر امام قعدہ اخیرہ کے اندر تشہد پڑھ رہا ہیں اور ایک دوسرا آدمی آیا تو امام کیا کرے جواب عنایت فرمائیں آپ کی کرم نوازش ہوگی


الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق 


صورت مسئولہ میں بعد میں آنے والا اس مقتدی کو پیچھے کھنچے جیسا کہ سیدی اعلی حضرت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر ایک  آدمی نے دوسرے کی اقتداء کی کہ تیسرا آگیا تو وہ مقتدی کو تکبیر کے بعد کھنچے، اگر اس نے تکبیر سے پہلے ہی  کھنچ لیا تو بھی کوئی حرج نہیں 


مگریہاں واجب التنبیہ یہ بات کہ کھینچنا اسی کوچاہئے جو ذی علم ہو یعنی اس مسئلہ کی نیت سے آگاہ ہو ورنہ نہ کھینچے کہ مبادا وہ بسبب ناواقفی اپنی نمازفاسد کرلے، تحقیق منقح اس مسئلہ میں یہ ہے کہ نماز میں جس طرح اللہ اور اللہ کے رسول کے سوا دوسرے سے کلام کرنا مفسد ہے یونہی اللہ ورسول کے سواکسی کاکہنا ماننا (جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) پس اگر ایک شخص نے کسی نمازی کو پیچھے کھینچا یاآگے بڑھنے کوکہااور وہ اس کاحکم مان کرپیچھے ہٹا نمازجاتی رہی اگرچہ یہ حکم دینے والا نیت باندھ چکاہو اور اگر اس کے حکم سے کام نہ رکھابلکہ مسئلہ شرع کے لحاظ سے حرکت کی تونماز میں کچھ خلل نہیں اگرچہ اس کہنے والے نے نیت نہ باندھی ہو اس لئے بہتریہ ہے کہ اس کے کہتے ہی فوراًحرکت نہ کرے بلکہ ایک ذرہ تامل کرلے تاکہ بظاہر غیر کے حکم ماننے کی صورت بھی نہ رہے جب فرق صرف نیت کاہے اور زمانہ پرجہل غالب، توعجب نہیں کہ عوام اس فرق سے غافل ہوکربلاوجہ اپنی نماز خراب کرلیں، ولہٰذا علماء نے فرمایا: غیرذی علم کواصلاً نہ کھینچے اور یہاں ذی علم وہ جو اس مسئلہ اور نیت کے فرق سے آگاہ ہو، (ہمارے زمانے کے لوگ نماز کے مسائل سے بہت کم واقف ہوتے ہیں لہذا بہتر یہ ہے کہ امام کو ہی آگے بڑھنا چاہے )  اور امام قعدہ اخیرہ میں ہو تو جہاں ان باتوں کا محل ہی نہیں  (یعنی اب نہ امام آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ مقتدی پیچھے ہٹ سکتا )  تو ایسی صورت میں اس آنے والے کو اس کے بائیں ہاتھ پر یہ مل جائے کہ امام کے برابر دو مقتدیوں کا ہونا صرف خلاف اولی ہے  (فتاوی رضویہ جلد 7 صفحہ 63 )  علامہ شامی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ تمام امکان کے وقت ہے ورنہ ممکن متعین ہے ظاہر یہ ہے کہ یہ تب ہے جب امام قعدہ آخر میں نہ ہو ورنہ تیسرا شخص امام کی بائیں جانب اقتداء کرے نہ آگے اور نہ پیچھے (درمختار ردالمتار جلد دوم کتاب الصلاۃ باب الاماتہ صفحہ 474  ) واللہ اعلم و رسولہ 


فقیر ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی عطاری 


دارالافتاء فیضان مدینہ آنلائن

Comments

Popular posts from this blog

जो निकाह पढ़ाए वहीं दस्तखत करे

کیا حضور پر جادو کا اثر ہوا تھا

راکھی باندھنا حرام ہے