مہر ادا کرنے میں تاخیر؟

​*السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ حق مہر کی کتنی اقسام ہیں نیز حق مہر دینے میں تاخیر کرنا کیسا ہے رہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں المستفتی عبداللہ پاکستان*

وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ 

الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق 

حق مہر عورت حق ہے جو مقرر ہو اسے ادا کرنا لازم قال اللہ تعالٰی



مہر کا بیان


                اللہ  عزوجل فرماتا ہے:


                {   فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِيْضَةًؕ     وَ لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا تَرٰضَيْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ

الْفَرِيْضَةِؕ  اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(۲۴)}   (1)


جن عورتوں  سے نکاح کرنا چاہو، ان کے مہر مقرر شدہ اُنھیں  دو اور قرار داد کے بعد تمھارے آپس میں  جو رضا مندی ہو جائے، اس میں  کچھ گناہ نہیں  ۔ بیشک اللہ  (عزوجل) علم و حکمت والا ہے۔  


                اور فرماتا ہے:


 { وَ  اٰتُوا  النِّسَآءَ  صَدُقٰتِهِنَّ  نِحْلَةًؕ-فَاِنْ  طِبْنَ  لَكُمْ  عَنْ  شَیْءٍ  مِّنْهُ  نَفْسًا  فَكُلُوْهُ  هَنِیْٓــٴًـا  مَّرِیْٓــٴًـا(۴) ً  } ) (2


عورتوں  کو ان کے مہر خوشی سے دو پھر اگر وہ خوشی دل سے اس میں  سے کچھ تمھیں  دے دیں  تو اسے کھاؤ رچتا پچتا۔


                اور فرماتا ہے:


 {    وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا عَرَّضْتُمْ بِهٖ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَآءِ اَوْ اَكْنَنْتُمْ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ سَتَذْكُرُوْنَهُنَّ وَ لٰكِنْ لَّا تُوَاعِدُوْهُنَّ سِرًّا اِلَّاۤ اَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۬ؕ-وَ لَا تَعْزِمُوْا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتّٰى یَبْلُغَ الْكِتٰبُ اَجَلَهٗؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوْهُۚ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۠(۲۳۵)لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْهُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَهُنَّ فَرِیْضَةً ۚۖ-وَّ مَتِّعُوْهُنَّۚ-عَلَى الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَ عَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗۚ-مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِۚ-حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِیْنَ(۲۳۶)وَ اِنْ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ وَ قَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِیْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّاۤ اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِهٖ عُقْدَةُ النِّكَاحِؕ-وَ اَنْ تَعْفُوْۤا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰىؕ-وَ لَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۳۷) }  (3)


                تم پر کچھ مطالبہ نہیں  اگر تم عورتوں  کو طلاق دو، جب تک تم نے ان کو ہاتھ نہ لگایا ہو یا مہر نہ مقرر کیا ہو اور ان کو کچھ برتنے کو دو، مالدار پر اس کے لائق اور تنگ دست پر اس کے لائق حسبِ دستور برتنے کی  چیز واجب ہے، بھلائی والوں  پر اورا گر تم نے عورتوں  کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دیدی اور ان کے لیے مہر مقرر کر چکے تھے تو جتنا مقرر کیا اس کا نصف واجب ہے مگر یہ کہ عورتیں  معاف کر دیں  یا وہ زیادہ دے جس کے ہاتھ میں  نکاح کی  گرہ ہے۔ اور اے مردو(۱) تمھارا زیادہ دینا پرہیزگاری سے زیادہ نزدیک ہے اور آپس میں  احسان کرنا نہ بھولو، بے شک اللہ  (عزوجل) تمھارے کام دیکھ رہا ہے۔

ابو یعلی و طبرانی صہیب رضی اللہ  تعا لٰی      عنہ سے راوی، کہ حضور (صلی اللہ  تعالٰی   علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’جو شخص نکاح کرے اور نیت یہ ہو کہ عورت کو مہر میں  سے کچھ نہ دے گا، توجس روز مرے گا زانی مرے گا اور جو کسی سے کوئی شے خریدے اور یہ نیت ہو کہ قیمت میں  سے اُسے کچھ نہ دے گا تو جس دن مرے گا، خائن مرے گا اور خائن نار میں  ہے۔‘


۸:  نکاح میں  مہر کا ذکر ہی نہ ہوا یا مہر کی  نفی کر دی کہ بلا مہر نکاح کیا تو نکاح ہو جائے گا اور اگر خلوتِ صحیحہ ہوگئی یادونوں  سے کوئی مر گیا تو مہر مثل واجب ہے بشرطیکہ بعد عقد آپس میں  کوئی مہر طے نہ پا گیا ہو اور اگر طے ہو چکا تو وہی طے شدہ ہے۔ یوہیں  اگر قاضی نے مقرر کر دیا تو جو مقرر کر دیا وہ ہے اور ان دونوں  صورتوں  میں  مہر جس چیز سے مؤکد ہوتا ہے، مؤکد ہو جائے گا اور مؤکد نہ ہوا بلکہ خلوتِ صحیحہ سے پہلے طلاق ہوگئی ،تو ان دونوں  صورتوں  میں  بھی ایک جوڑا کپڑا واجب ہے یعنی کرتہ،

پاجامہ، دوپٹا جس کی  قیمت نصف مہر مثل سے زیادہ نہ ہو اور زیادہ ہو تو مہر مثل کا نصف دیا جائے اگر شوہر مالدار ہو اور ایسا جوڑا بھی نہ ہو جو پانچ درہم سے کم قیمت کا ہو اگر شوہر محتاج ہو اگر مرد و عورت دونوں  مالدار ہوں  تو جوڑا اع لٰی      درجہ کا ہو اور دونوں  محتاج ہوں  تو معمولی اور ایک مالدار ہو ایک محتاج تو درمیانی۔ (1) (جوہرہ نیرہ، درمختار، عالمگیری)

مہر کی تین قسمیں 

...پاجامہ، دوپٹا جس کی  قیمت نصف مہر مثل سے زیادہ نہ ہو اور زیادہ ہو تو مہر مثل کا نصف دیا جائے اگر شوہر مالدار ہو اور ایسا جوڑا بھی نہ ہو جو پانچ درہم سے کم قیمت کا ہو اگر شوہر محتاج ہو اگر مرد و عورت دونوں  مالدار ہوں  تو جوڑا اع لٰی      درجہ کا ہو اور دونوں  محتاج ہوں  تو معمولی اور ایک مالدار ہو ایک محتاج تو درمیانی۔ (1) (جوہرہ نیرہ، درمختار، عالمگیری)

ہے تو لے جا سکتا ہے اور شوہر یہ چاہے کہ جو دیا ہے واپس کرلے، تو واپس نہیں  لے سکتا۔ (1) (عالمگیری)


مسئلہ ۴۵:  نابالغہ کی  رخصت ہوچکی  مگر مہرِ معجل وصول نہیں  ہوا ہے، تو اس کا ولی روک سکتا ہے اور شوہر کچھ نہیں  کرسکتا جب تک مہرِ معجل ادا نہ کرلے۔(2) (عالمگیری)


مسئلہ ۴۶:  باپ اگر لڑکی  کا مہر شوہر سے وصول کرنا چاہے تو اس کی  ضرورت نہیں  کہ لڑکی  بھی وہاں  حاضر ہو، پھر اگرشوہر لڑکی  کے باپ سے رخصت کے لیے کہے اور لڑکی  اپنے باپ کے گھر موجود ہو تو رخصت کر دے اور اگر وہاں  نہ ہو اور بھیجنے پر بھی قدرت نہ ہو تو مہر پر قبضہ کرنے کا بھی اسے حق نہیں  ، اگر شوہر مہر دینے پر تیار ہے مگر یہ کہتا ہے کہ لڑکی  کا باپ لڑکی  کو نہیں  دے گا خود لے لے گاتو قاضی حکم دے گا کہ لڑکی  کا باپ ضامن دے کہ مہر لڑکی  کے پاس پہنچ جائے گا اور شوہر کو حکم دے گا مہر ادا کردے۔ (3) (عالمگیری)


مسئلہ ۴۷:  مہرِ مؤجل یعنی میعادی تھا اور میعاد پوری ہوگئی تو عورت اپنے کو روک سکتی ہے یا بعض معجل تھا، بعض میعادی اور میعاد پوری ہوگئی تو عورت اپنے کو روک سکتی ہے۔ (4) (عالمگیری، درمختار)


مسئلہ ۴۸:  اگر مہر مؤجل (جس کی  میعاد موت یا طلاق تھی) یا مطلق تھا اور طلاق یا موت واقع ہوئی تو اب یہ بھی معجل ہو جائے گا یعنی فی الحال مطالبہ کر سکتی ہے اگرچہ طلاقِ رجعی ہو مگر رجعی میں  رجوع کے بعد پھر مؤجل ہوگیا(5)  اور اگر مہرمنجم ہے یعنی قسط بقسط وصول کرے گی اور طلاق ہوئی تو اب بھی قسط ہی کے ساتھ لے گی۔ (6) (عالمگیری، ردالمحتار)


مسئلہ ۴۹:  مہر معجل لینے کے لیے عورت اگر وطی سے انکار کرے تو اس کی  وجہ سے نفقہ ساقط نہ ہوگا اور اس صورت میں  بلا اجازت شوہر کے گھر سے باہر بلکہ سفر میں  بھی جا سکتی ہے جبکہ ضرورت سے ہو اور اپنے میکے والوں  سے ملنے کے لیے بھی   بلا اجازت جا سکتی ہے اور جب مہر وصول کر لیا تو اب بلا اجازت نہیں  جاسکتی مگر صرف ماں  باپ کی  ملاقات کو ہر ہفتہ میں ایک بار دن بھر کے لیے جا سکتی ہے اور محارم (7) کے یہاں  سال بھر میں  ایک بار اور محارم کے سوا اور رشتہ داروں  یا غیروں  کےیہاں  غمی یا شادی کی  کسی تقریب میں  نہیں  جاسکتی، نہ شوہر ان موقعوں  پر جانے کی  اجازت دے، اگر اجازت دی تو دونوں  گنہگار   ہوئے۔ (1) (درمختار(بہار شریعت باب مہر)

.خلاصہ      لہٰذا جس طرح کا معاہدہ ہوگا، اس کے مطابق عمل کرنا پڑے گا۔ جیسے قرض وعدہ کے مطابق واپس نہ کرنا وعدہ خلافی ہے، لیکن اگر قرض دینے والا مزید وقت دے تو یہ اس کی مرضی ہے۔ بالکل اُسی طرح عورت اگر اپنی مرضی سے مہلت دے، تو اس کی مرضی۔ اور اگر مقررہ وقت پر طلب کر لے تو اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ جب وہ طلب کرے تو مرد ادائیگی کا پابند ہے۔ نہ ادا کرنے کی صورت میں شریعت نے اسے حق دیا ہے کہ وہ مرد کو قریب آنے سے روک سکتی ہے۔

کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی عطاری 

تاریخ 28 مارچ 2022 بروز پیر

Comments

Popular posts from this blog

जो निकाह पढ़ाए वहीं दस्तखत करे

کیا حضور پر جادو کا اثر ہوا تھا

راکھی باندھنا حرام ہے