گاؤں میں عید کی نماز ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ کیا فرماتے ہیں علمائے اہل سنت اس مسئلے کے بارے میں کہ جس گاؤں میں کہ جمعہ کی نماز نہیں ہوتی اس گاؤں میں عید کی نماز ادا کر سکتے ہیں
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق
*بہار شریعت حصہ چہارم باب جمعہ📕 *مفتی امجد علی اعظمی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں*
عیدین کی نماز واجب ہے مگر سب پر نہیں بلکہ انھیں پر جن پر جمعہ واجب ہے اور اس کی ادا کی وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے لیے ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عیدین میں سنت، اگر جمعہ میں خطبہ نہ پڑھا تو جمعہ نہ ہوا اور اس میں نہ پڑھا تو نماز ہوگئی مگر بُرا کیا۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ جمعہ کا خطبہ قبل نماز ہے اور عیدین کا بعد نماز، اگر پہلے پڑھ لیا تو بُرا کیا، مگر نماز ہوگئی لوٹائی نہیں جائے گی اور خطبہ کا بھی اعادہ نہیں اور عیدین میں نہ اذان ہے نہ اقامت، صرف دوبار اتنا کہنے کی اجازت ہے۔ اَلصَّلٰوۃُ جَامِعَۃٌ ط ۔ (4) (عالمگیری، درمختار وغیرہما) بلاوجہ عید کی نماز چھوڑنا گمراہی و بدعت ہے۔ (5) (جوہرہ نیرہ) ایسا ہدایہ جلد دوم صفحہ 532 میں ہے! اور تنویر الابصار جلد سوم صفحہ 283 میں عید کی نماز اسی پر واجب ہے جس پر جمعہ واجب ہوتا ہے
گاؤں میں عیدین کی نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔ (6) (درمختار) (بہار شریعت حصہ چہارم صفحہ 784 ) (فتاوی شامی جلد سوم صفحہ 284 ) حضرت امام اجل فخر الدین حسن بن منصور قاضی خان رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں نماز عید کے لئے وہی شرائط ہے جو جمعہ کے لئے ہیں یعنی شہر کا ہونا، بادشاہ کا ہونا، اور عام اجازت کا ہونا (فتاوی قاضی خان جلد اول صفحہ 386 ) خلاصہ کلام تمام فقہاء کرام کے نزدیک دہات گاؤں میں عید کی نماز پڑھنا جائز نہیں بلکہ مکروہ تحریمی ہے فقیر کا نظریہ یہ ہے کہ عید کی نماز بھی ہمارے زمانہ میں عموم بلوی کی شکل اختیار کر چکی ہے جہاں پہلے سے عید اور جمعہ ادا کرتے ہیں ان کو نہ روکے کہ کم از کم یہ اللہ کا ذکر کر رہے ہیں امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ایک شخص کو بعد نماز عید نفل پڑھتے دیکھا حالانکہ بعد عید نفل مکروہ ہیں، کسی نے عرض کیا یا امیرالمومنین آپ منع نہیں کرتے؟ فرمایا میں وعید میں داخل ہونے سے ڈرتا ہوں، اللہ فرماتا ہے کیا تو نے نہیں دیکھا اسے جو منع کرتا ہے بندہ کو جب وہ نماز پڑھے ! شمس الائمہ حلوانی سے سوال ہوا کہ عوام سستی کرتے ہوئے طلوع شمس کے وقت نماز فجر ادا کرتے ہیں کیا ہم انھیں زجر و توبیخ کریں؟ فرمایا ایسا نہ کرو کیونکہ اگر تم اس سے ان کو روکو گے تو نماز بلکل ترک کر دیں گے نماز کا ادا کرلینا چھوڑ دینے سے بہتر ہے (فتاوی رضویہ جلد 8 صفحہ 375 ) واضح رہے کہ نئے سیرے سے عید کی نماز قائم کرنے کا حکم ہم ہرگز نہیں دیتے ہاں جہاں کہیں سالوں سے ہوتی ہے وہاں ہم نرمی کرتے ہوئے اجازت دیتے ہیں آج کل نئی نسل چند کتب پڑھ کر سوشل میڈیا پر ائمہ کرام کے خلاف بکواس کرتے ہیں کہ فلاں امام نے گاؤں میں عید کی نماز پڑھتا ہے تو اس پر کیا حکم ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا وغیرہ وغیرہ نادان امام کے پیچھے کیوں پڑ جاتے ہو اس نے نماز ہی تو پڑھائی ہے کوئی ڈاکہ تو نہیں ڈالا اللہ تعالٰی صحیح سمجھ عطا فرمائیں
واللہ اعلم و رسولہ
کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی عطاری
دارالافتاء فیضان مدینہ آنلائن
تاریخ 13 اپریل 2022 بروز بدھ
Comments
Post a Comment