حیلہ شرعی کے بعد تنخوہ ؟
حیلہ شرعی کے بعد تنخواہ دی جائے
دارالافتا۶ - 12:05
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ بعد سلام عرض ہے کہ مکتب مدرسہ میں زکاتہ کا پیسہ حیلا شرعیہ کروا کر مدرس کو تنخواہ دے سکتے ہیں کہ نہیں قاری محمد سلیم اکبری ثم جالوری
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق
آج کل مسلمانوں نے حیلہ کا دامن بہت مضبوطی سے تھام رکھا ہے اتنا اگر زکوۃ کے مسئلے کو صحیح سمجھ کر اور ان کے حقدار و کو دی جاتی تو ہمارے معاشرے سے غربت ختم ہو جاتی مگر افسوس صد افسوس آج کل کے لوگ اپنے مفاد کی خاطر بہانا بنا کر یہ چاہتے ہیں کہ ہماری زکوۃ ہی ہمارے گھر سے باہر نہ جائے اور زکوۃ بھی ادا ہو جائے یہ ممکن نہیں
ہر جگہ حیلہ کا استعمال کر کے حقیقی غریب کی حق *تَلفی* ہو رہی ہے
بڑے بڑے دارالعلوم کو چلانے میں مال کثیر کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ نہیں مل پاتا اس لیے علماء نے دارالعلوم کو زکوۃ دینے کی اجازت دی ہے نہ کہ ہر کسی مکتب کے لئے افسوس صد افسوس مسلمان فالتو لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں اور اپنے ہی مکتب کو چلانے کے لئے زکوۃ کا سہارا لیتے ہیں یہ بلکل غلط ہے مسلمانوں اللہ نے اپنے فضل سے تمھیں مال دیا ہے تو اس کی زکوۃ حقدار تک پہنچانا تم پر لازم ہے آج غریب تڑپ رہا ہے اور مسلمان اپنی زکوۃ کا بے جا استعمال کرتے ہیں اگر زکوۃ ان کے حقدار و تک پہنچائی جائے تو ہماری ملک سے چند سالوں میں غریبی ختم ہو سکتی ہے لہٰذا زکوۃ ان کے حقدار کو ہی دے نہ کے مکتب وغیرہ میں دے مسلمان روزانہ 100 روپے پان ماوی میں خرچ کر دیتا ہے تو کیا وہ اپنے مکتب امداد نہیں دے سکتا خدا کا خوف کرے اور زکوۃ ان کے مستحق کو ہی دے فتاوی تربیت افتاء میں ہے حیلہ شرعی بعد بھی امور خیر میں صرف اسی صورت میں خرچ کر سکتے ہیں جبکہ وہ امور دیگر رقوم سے انجام نہ پا سکیں تاکہ زکوۃ کے اصل مستحق کی حق تَلفی نہ ہو (فتاوی تربیت افتاء صفحہ 436 )
سیدی امام احمد رضا خان قادری رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں اغنیاء کثیر المال شکر نعمت بجا لائیں ہزاروں روپے فضول خواہش یا دنیاوی آسائش یا ظاہری آرائش میں اٹھا نے والے مصارف خیر میں ان حیلوں کی آڑ نہ لے (فتاوی رضویہ جلد 4 صفحہ 396 ) خلاصہ حیلہ شرعی کی اجازت تب ہی ہے جب کہ وہ کام دوسرے طریقے سے نہیں ہو سکتا ہو اور لوگ اپنے امام یا مدرس کی تنخواہ نہ دے سکے اور حلیہ کے ذریعے اگر یہ کام نہیں کیا تو دین کا نقصان ہوگا تو ایسی صورت میں حیلہ شرعی کے بعد تنخواہ دی جائے البتہ وہ دینا دار مولوی صاحبان بھی خیال رکھے ہر بستی بستی مدرسہ کھول کر 56 فسد پر چندہ کرتے ہیں یہ بہت بری حرکت ہے ہاں آپ اپنی محنت بیشک وصول کرے مگر یہ بھی غور کریں کہ کیا آپ نوکری پر ہوتے تو اتنا روپیہ کما پاتے نہیں ہرگز نہیں تو پھر چندہ بھی اس طرح کرے کہ ادارے کا بھی بھلا ہو جائے اور آپ کا بھی کام ہو جائے مناسب کمیشن لیا جائے تو اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے گا نہ کہ چندہ کو ہی دھندا بنا کر رکھو واللہ اعلم و رسولہ
کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی عطاری
دارالافتاء فیضان مدینہ آنلائن
تاریخ 18 اپریل بروز پیر 2022
Comments
Post a Comment