حاسد کی اقتدہ ؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ جو علماء ظاہر میں ایک دوسرے سے حسد کرے اور لالچ بھی ایسے علماء کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے سائل محمد علی سانواں
وعلیکم اسلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق
حسد دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے 1 کسی پر نعمت الہی دیکھ کر جلنا اور اس زوال کی دل میں خواہش کرنا 2 کسی پر نعمت و رحمت خداوندی دیکھ کر اپنے لئے اللہ سے دعا کرنا کسی پر نعمت سے نہ جلنا اور نہ اس کے زوال کی خواہش رکھنا اسے غبطہ بھی کہتے ہے یہ جائز ہے پہلی قسم سخت حرام اللہ فرماتا ہے
وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْاؕ-وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَؕ-وَ سْــٴَـلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا(32)
ترجمۂ کنز الایمان
اور ا س کی آرزو نہ کرو جس سے اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پر بڑائی دی مردوں کے لیے ان کی کمائی سے حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کی کمائی سے حصہ اور اللہ سے اس کا فضل مانگو بے شک اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
تفسیر صراط الجنان
{وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ:اور ا س کی آرزو نہ کرو جس سے اللہ نے بڑائی دی۔} جب ایک انسان دوسرے کے پاس کوئی ایسی نعمت دیکھتا ہے جو اس کے پا س نہیں تو ا س کا دل تَشویش میں مبتلا ہو جاتا ہے ایسی صورت میں اس کی حالت دو طرح کی ہوتی ہے(1) وہ انسان یہ تمنا کرتا ہے کہ یہ نعمت دوسرے سے چھن جائے اور مجھے حاصل ہو جائے۔ یہ حسد ہے اور حسد مذموم اور حرام ہے۔ (2) دوسرے سے نعمت چھن جانے کی تمنا نہ ہو بلکہ یہ آرزو ہو کہ اس جیسی مجھے بھی مل جائے، اسے غبطہ کہتے ہیں یہ مذموم نہیں۔ (تفسیرکبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۳۲، ۴ / ۶۵)
لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جس بندے کو دین یا دنیا کی جِہت سے جو نعمت عطا کی اسے اس پر راضی رہنا چاہئے اور اللہ فرماتا ہے
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ-فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا(54)
ترجمۂ کنز الایمان
یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا تو ہم نے ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بڑا ملک دیا۔
تفسیر صراط الجنان
{اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ: بلکہ یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں۔} اس آیت میں یہودیوں کے اصل مرض کو بیان فرمایا کہ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو نبوت عطا فرمائی اور ان کے ساتھ ان کے غلاموں کو جو نصرت، غلبہ، عزت وغیرہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان پر یہ لوگ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اہلِ ایمان سے حسد کرتے ہیں حالانکہ یہودیوں کا یہ فعل سراسر جہالت و حماقت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد پر فضل فرمایا تھا کہ کسی کو کتاب عطا فرمائی، کسی کو نبوت اور کسی کو حکومت اور کسی کو اکٹھی کئی چیزیں جیسے حضرت یوسف، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نوازا تو پھرا گر اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے حبیب، امامُ الانبیاء ، سیدُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے کرم سے کتاب اور نبوت و رسالت عطا فرماتا ہے تو اے یہودیو! تم اس سے کیوں جلتے اور حسد کرتے ہو؟ حدیث میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہوتی ہے کسی کی( خفیہ ) بات پر کان لگاؤں اور نہ کسی کی جاسوسی کرو نہ مال و دولت کی حرص (لالچ ) میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کروں اور نہ آپس میں حسد کرو آپس میں دشمنی نہ رکھو اور نہ ایک دوسرے کی طرف پیٹھ پھیرو اور اے بند گان خدا آپس میں بھائی بھائی بن جاؤں جیسا کہ اللہ نے تمھیں حکم دیا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے مسلمان مسلمان پر ظلم نہیں کرتا اسے ذلیل نہیں کرتا اور نہ اسے حقیر سمجھتا ہے تقوی یہاں👈🏻❤️ ہے تقوی یہاں ہے 👈🏻❤️ آپ نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کیا الخ (الترغیب و الترہب جلد دوم صفحہ 400 ) مسلم کی روایت میں ہے کسی بندے کے دل ❤️ میں ایمان اور حسد اکٹھے (جمع ) نہیں ہو سکتے اور فرمایا کہ حسد سے بچتے رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے اور فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیے جو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے گئے وہ بکریوں کا اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال کی حرص (لالچ ) اور حسد مسلمان کے دین کا نقصان کر دیتے ہیں الخ (الترغیب و الترہب جلد دوم صفحہ 401 ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاسد اور حرص کتنے برے ہے تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ حسد اور حرص کی خوفناک بیماری میں صرف عوام ہی مبتلا نہیں ہے بلکہ اہل علم بھی اس میں مبتلا ہے ایک کثیر تعداد میں علماء حسد کی آگ میں جل رہے ہیں اور جو نیک کام کر رہا ہے اس پر فتووں کی بھر مار کرتے ہوئے نظر آئیں گے اور لالچ تو اتنا ہے کہ واعظ تو کرتے ہیں صبر کا اور خود اتنے بڑے بے صبرے کے ہمیشہ نذرانہ کم ملنے کا رونا روتے ہیں بعض مولوی صاحب کا تو یہ حال ہے کہ مال کے لالچ نے ان کی عوام میں حیثیت ہی ختم کر دی ہے کوئی بھی جاہل آ کر ان کو سنا لیتا ہے پھر کہتے ہیں کہ عوام علماء کی قدر نہیں کرتی کرے گی کہا سے آپ کو دیکھ رہے ہیں چلا چلا کر صبر کا مفہوم جو آپ سمجھا رہے ہیں مگر آپ کے پاس صبر نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے آج مولوی صاحب کو کوئی جگہ 8 ہزار تنخواہ والی ہے تو بھی روتے ہیں دس ہزار والی ہے تو بھی روتے ہیں ۔کہ تنخواہ سے گھر نہیں چلتا درست فرماتے ہیں آپ 8 یا دس ہزار میں گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے مگر اس وجہ کبھی آپ نے جاننے کی کوشش نہیں کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا رزق پانے کا بھروسہ عوام پر ہے اگر یہ بھروسہ رزاق پر ہوتا تو آپ کو رونا نہیں پڑتا الحمد للہ آپ فقیر کو آکر دیکھے تنخواہ صرف 7 ہزار ہے اور کوئی آمدنی نہیں ہے اہل عیال کثیر ہے پھر بھی اللہ کے فضل سے ہمارے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالی نے برکت عطا کی ہے لہٰذا پہلے آپ لوگ ایک اچھے اور متقی عالم بن جائے اور رزق کی قلت کا رونا عوام کے سامنے نہ روئے بلکہ اس ذات لاشریک اللہ پر بھروسہ کرے اسی عوام سے اللہ آپ کو دلوائے گا اللہ ہم سب کو حسد و حرص سے محفوظ رکھے سائل کے سوال میں حکم پوچھا گیا ہے تو ایسے شخص جو حسد اور حرص میں مبتلا ہو اس کی اقتداء میں نماز مکروہ ہے کہ حسد حرام ہے اور حرام کا مرتکب فاسق ہے اور فاسق کی اقتداء مکروہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علماء نے فرمایا کہ فاسق کی اقتداء نہ کی جائے گی اگر شہر میں متعدد جگہ جمعہ ہوتا ہو (فتاوی رضویہ جلد سوم صفحہ 424 ) ایک جگہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں فاسق کو سلام کرنا ناجائز ہے (فتاوی رضویہ جلد 22 صفحہ 68 ) جب فاسق کو سلام کرنا جائز نہیں تو اسے امام بنانا بھی جائز نہیں ! لہٰذا امام متقی ہونا چاہیے حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے پرہیزگار عالم دین کی اقتداء میں نماز پڑھی اس نے گویا نبی کی اقتداء میں نماز پڑھی (شرح صحیح مسلم جلد دوم صفحہ 306 ) حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی فاسق مسلمان کی امامت نہ کرے (ابن ماجہ ) امام کو مسلمان تنخواہ دیتے ہیں تو پھر فاسق کو کیوں رکھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہیں خوش آئے کے خدا تمھاری نماز قبول کرے تو چاہے کہ تمھارے اچھے تمھاری امامت کرے وہ تمھارے صفیر ہے (فتاوی رضویہ جلد 5 صفحہ 445 )
واللہ اعلم و رسولہ
کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی
دارالافتاء فیضان مدینہ آنلائن
تاریخ 14 مئی 2022 بروز ہفتہ
Comments
Post a Comment