قوالی کا شرعی حکم؟

​الحمد للّٰہ رب العالمین ؔ والصلوتہُ و السلام علی سید المرسرین اما بعد فاعوذُ بللہ من الشیطان الرجیم 

 بسم اللہ الرحمن الرحیم ؔ٭

فی زمانہ بزرگان دین کے عرسوں میں جو خرافات کی جاتی ہے اس میں ایک ہے مزامیرکے ساتھ قوالی اور کچھ لوگ تو اسے حلال کہتے ہوئے سلسلہ چشتیاں کی طرف منسوب کرتے ہے جو کہ غلط ہے ان بزرگوں نے کبھی بھی مزامیر کے ساتھ قوالی نہیں سنی ہے بلفرض اگر کسی بزرگ نے اس طرح کی قوالی سنی بھی ہو تو اس سے جائز نہیں ہو جائےگا شریعت کے قوانین کسی بزرگ کے قول و فعل پر نہیں ہے بلکہ شریعت کے قوانین اللہ  و رسول کے حکم سے ہے  (عزوجل صلی اللہ علیہ وسلم


اگر کچھ علما۶ نے جائز لکھا ہے تو یہ ان کی خطا ہے علما۶ معصوم نہیں ہوتے 

ائمہ اور فقہاء کے اقوال پر احادیث کو مقدم رکھنا ان کی بےادبی نہیں ہے۔ -

اسی طرح اگر ائمہ مجتہدین میں سے کسی کا قول حدیث صحیح کے خلاف ہو تو حدیث صحیح پر عمل کیا جائے گا اور اس میں کسی امام کی بےادبی نہیں ہے بلکہ اس آیت پر عمل ہے ‘ امام ابوحنیفہ نے عید الفطر کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے کو مطلقا مکروہ قرار دیا ہے خواہ متصل روزے رکھے جائیں یا منفصل تاکہ فرض پر زیادتی کے ساتھ تشبیہ نہ ہو ‘ لیکن حدیث صحیح میں اس کی فضیلت اور استحباب ہے۔ -

حضرت ابوایوب انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزے رکھنے کی مثل ہے۔ (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١١٦٤) -

لیکن چونکہ امام اعظم   کا یہ قول حدیث صحیح کے خلاف ہے اس لیے علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی ٩٧٠ ھ نے لکھا ہے کہ لیکن عام متاخرین فقہاء کے نزدیک شوال کے چھ روزے رکھنے میں مطلقا کوئی کراہت نہیں ہے۔ (البحرالرائق ج ٢ ص ٢٥٨) -

علامہ ابن ہمام متوفی ٨٦١ ھ علامہ طحطاوی متوفی ١٢٣١ ھ ‘ علامہ حسن بن عمار شرنبلالی متوفی متوفی ١٠٦٩ ھ اور علامہ ابن عابدین شامی متوفی ١٢٥٢ ھ سب نے اسی طرح لکھا ہے اور ان روزوں کو مستحب قرار دیا ہے۔ -

اسی طرح امام محمد نے امام ابوحنیفہ سے یہ روایت کی ہے کہ لڑکے کا عقیقہ کیا جائے نہ لڑکی کا (الجامع الصغیر ص ٥٣٤) اور تمام فقہاء احناف نے عقیقہ کرنے کو مکروہ یا مباح لکھا ہے (بدائع الصنائع ج ٥ ص ٦٩ عالم گیری ج ٥ ص ٣٦٢) -

لیکن چونکہ بہ کثرت احادیث سے عقیقہ کا سنت ہونا ثابت ہے اس لیے امام احمد رضا قادری متوفی ١٣٤٠ ھ نے لکھا ہے کہ عقیقہ سنت ہے۔ (فتاوی رضویہ ج ٨ ص ٥٤٢‘ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی) -

دلائل کی بناء پر اکابر سے اختلاف کرنا ان کی بےادبی نہیں ہے : -

اسی طرح امام احمد رضا قادری کے بعد کے علماء نے امام احمد رضا قادری سے بھی اختلاف کیا ہے۔ -

امام احمد رضا قادری متوفی ١٣٤٠ ھ بدھ کے دن ناخن کاٹنے کے متعلق لکھتے ہیں : -

نہ چاہیے حدیث میں اوس سے نہی (ممانعت) آئی کہ معاذ اللہ مورث برص ہوتا ہے بعض علماء رحمہم اللہ نے بدھ کو ناخن کتروائے کسی نے برنباء حدیث منع کیا ‘ فرمایا صحیح نہ ہوئی فورا برص ہوگئے۔ (فتاوی رضویہ ج ١٠ ص ٣٧ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی) -

صدرالشریعہ مولانا امجد علی قادری متوفی ١٣٧٦ ھ لکھتے ہیں : -

ایک حدیث میں ہے جو ہفتہ کے دن ناخن ترشوائے اس سے بیماری نکل جائے گی اور شفا داخل ہوگی اور جو اتوار کے دن ترشوائے فاقہ نکلے گا ‘ اور توانگری آئے گی ‘ اور جو پیر کے دن ترشوائے جنون جائے گا اور صحت آئے گی اور جو منگل کے دن ترشوائے مرض جائے گا اور شفا آئے گی اور جو بدھ کے دن ترشوائے وسواس وخوف نکلے گا اور امن وشفا آئے گی الخ۔ (درمختار۔ ردالمختار)  (بہار شریعت ج ١٦ ص ١٢٢‘ مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکشز لاہور) -

نیز امام احمد رضا قادری نے سماع مع المزامیر کو حرام لکھا ہے اور استاذ العلماء مولانا حافظ عطا محمد چشتی دامت برکاتھم اور حضرت غزالی زماں امام اہل سنت سید احمد سعید کا ظمی قدس سرہ نے اس کو جائز لکھا ہے۔ -

علماء اور مجتہدین حضرات معصوم نہیں دلائل کے ساتھ ان سے اختلاف کرنا جائز ہے۔ -

امام احمد رضا قادری متوفی ١٣٤٠ ھ لکھتے ہیں : -

انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے سوا کچھ بشر معصوم نہیں اور غیر معصوم سے کوئی نہ کوئی کلمہ غلط یا بیجا صادر ہونا کچھ نادر کا لمعدوم نہیں پھر سلف صالحین وائمہ دین سے آج تک اہل حق کا یہ معمول رہا ہے کہ ہر شخص کا قول قبول بھی کیا جاتا ہے۔ اور اس کو رد بھی کیا جاتا ہے جاتا ہے ماسوا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ‘ جس کی جو بات خلاف حق و جمہور دیکھی وہ اسی پر چھوڑی اور اعتقاد وہی رکھا جو جماعت کا ہے (فتاوی رضویہ ج ٦ ص ٢٨٣ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی) -

نیز فرماتے ہیں : -

ویابی اللہ العصمۃ الالکلامہ ولکلام رسولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالی اپنے کلام اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام کے سوا کسی کے کلام کو معصوم قرار دینے سے انکار فرماتا ہے (پھر فرمایا) انسان سے غلطی ہوتی ہے مگر رحمت ہے اس پر جس کی خطا کسی امر دینی مہم پر زد نہ ڈالے۔ (الملفوظ ج ٤ ص ٣‘ مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی) حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ سے سوال کیا گیا کہ اعلی حضرت مجدد مائتہ حاضرہ نے گھڑی کے چین اور عورتوں کی کتابت اور انگریزی لباس وغیرہ کو ناجائز لکھا ہے اور آپ نے ان کو جائز لکھا ہے کیا وہ فتوی وقتی اور عارضی تھا اور اب یہ امور جائز ہوگئے ہیں ؟ حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ نے اس کے جواب میں لکھا : -

(١) ہاں مجدد وقت کی ایسی ہدایات و تصریحات (جو کتاب وسنت سے مستنبط ہیں) کی روشنی میں یوں ہوسکتا ہے ؟ بلکہ عملا خود مجدد وقت ہی اس کا سبق بھی دے چکے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ خالصا لوجہ اللہ تعالی ہو ‘ تعجب ہے کہ خود مستفتی صاحب کو روز روشن کی طرح معلوم ہے کہ حضرت امام اعظم (رض) کے محققانہ اقوال وفتاوائے شرعیہ کی موجودگی میں حضرات صاحبین وغیرہما اجلہ تلامذہ بلکہ متاخرین کے بھی بکثرت ایسے اقوال وفتاوی ہیں ‘ جو ان کے خلاف ہیں جن کی بنا قول صوری و ضروری وغیرہ اصول ستہ پر ہے جس کی تفصیل فتاوی رضویہ ج ١ ص ٣٨٥ وغیرہا میں ہے بلکہ یہ بھی اظہرمن الشمس ہے کہ خود ہمارے مجدد برحق کے صدہا نہیں بلکہ ہزار ہا تطفامات ہیں جو صرف متاخرین نہیں بلکہ متقدمین حضرات فقیہ النفس امام قاضی خاں وغیرہ کے اقوال وفتاوی شرعیہ پر ہیں جن میں اصول ستہ کے علاوہ سبقت قلم وغیرہ کی صریح نسبتیں بھی مذکور ہیں اور یہ بھی نہاں نہیں کہ ہمارے مذہب مہذب میں مجددین حضرات معصوم نہیں تو تطفامات کا دروازہ اب کیوں بند ہوگیا ؟ کیا کسی مجدد کی کوئی ایسی تصریح ہے یا کم از کم اتنی ہی تصریح ہو کہ اصول ستہ کا زمانہ اب گزر گیا لہذا الکیر کا فقیر بننا فرض عین ہوگیا ‘ کیا تازہ حوادثات ونوازل کے متعلق احکام شرعی موجود نہیں کہ ہم بالکل صم بکم بن جائیں اور عملا اغیار کے ان کافرانہ مزعومات کی تصدیق کریں کہ معاذ اللہ اسلام فرسودہ مذہب ہے ‘ اس میں روز مرہ ضروریات زندگی کے جدید ترین ہزار ہا تقاضوں کا کوئی حل ہی نہیں ‘ ” ولا حوال ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ -

اسی ایک جواب سے نمبر ٢ اور نمبر ٣ کے جواب میں واضح ہیں البتہ یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ کسی ناجائز اور غلط چیز کو اپنے مفاد ومنشا سے جائز ومباح کہنا ہرگز ہرگز جائز نہیں مگر شرعا اجازت ہو تو عدم جواز کی رٹ لگانا بھی جائز نہیں ‘ غرضیکہ ضد اور نفس پرستی سے بچنا نہایت ہی ضروری ہے ‘ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے ذمہ دار علماء کرام محض اللہ کے لیے نفسانیت سے بلند وبالا سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایسے جزئیات کے فیصلے کریں ‘ مثلا یہ کہ وہ لباس جو کفار یا فجار کا شعار ہونے کے باعث ناجائز تھا کیا اب بھی شعار ہے تو ناجائز ہے یا اب شعار نہیں رہا تو جائز ہے ‘ مگر بظاہر یہ توقع تمنا کے حدود طے نہیں کرسکتی اور یہی انتشار آزاد خیالی کا باعث بن رہا ہے۔ ” فانا للہ وانا الیہ راجعون “۔ (فتاوی نوریہ ج ٣ ص ٤٧٠۔ ٤٦٩ )

 

علامہ اسماعیل حقی الروسوی الحنفی المتوفی ١١٣٧ ھ لکھتے ہیں :-

حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ نے مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور مھے یہ حکم دیا ہے کہ میں مزامیر ( منہ سے بجائے جانے والے آلات موسیقی) اور برابط اور معازف ( ہاتھوں سے بجائے جانے والے آلات موسیقی) کو اور ان بتوں کو مٹادوں جن کی زمانہ جاہلیت میں پرستش کی جاتی تھی الحدیث (مسند احمد ج ٥ ص ٢٧٥‘ المعجم الکبیر للطبرانی : ٧٨٠٣) نیز حدیث میں ہے مجھے مزامیر کو توڑنے اور خنزیروں کو قتل کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔-

اہل معانی نے کہا اس آیت میں ہر وہ شخص داخل ہے جو لھو ولعب کو اور مزامیر اور معازف کو قرآن مجید کے مقابلہ میں ترجیح دے ‘ اور ذمیوں کو مزامیر اور طنا بیر کی بیع سے منع کیا جائے گا اور غنا کے اظہار سے بھی روکا جائے گا ‘ اور جن احادیث میں عید کے ایام میں غنا کی رخصت ہے وہ متروک ہیں ‘ اس زمانہ میں ان پر عمل نہیں کیا جائے گا اسی لیے عید کے دن معازف کو جلانا مستحب ہیص علامہ اسماعیل حقی نے یہ صحیح نہیں لکھا کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے اور قیاس سے احادیث کو منسوخ کرے اور صحیح یہ ہے کہ عید ‘ نکاح اور دیگر خوشی کے ایام میں اچھے اشعار کو دف کے ساتھ اور بغیر دف کے قلیل مقدار میں پڑھنا جائز ہے البتہ دیگر آلات موسیقی کو استعمال کرنا مطلقا ممنوع ہے اسی طرح ان اشعار کا پڑھنا بھی مطلقا ممنوع ہے جن کا مضمون غیر شرعی ہو۔ ( غلام رسول سعیدی غفرلہ)-

جائز اور ناجائز سماع -

طرز اور خوش الحانی کے ساتھ اشعار سننے میں اختلاف ہے ‘ اگر اشعار میں عورتوں کا ذکر ہو اور انسان کے قد اور رخسار کا ذکر ہو جس سے نفس اور شہوت کی آگ بھڑکتی ہو تو دین دار لوگوں کے لیے ان کا سننا جائز نہیں ہے خصوصا جب کہ اس کو بہ طور مشغلہ سنا جائے۔ اور اگر ان اشعار میں جنت اور دوزخ کا ذکر ہو ‘ دوزخ سے ڈرایا گیا ہو اور جنت کی ترغیب دی گئی ہو اور اللہ عزوجل کی نعمتوں کی تعریف کی گئی ہو ‘ اور نیک کاموں کی تحریک ہو تو پھر ان کے سننے پر انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے ‘ اور اسی قبیل سے جہاد اور حج کے فضائل کے اشعار ہیں ‘ جن کو سن کر جہاد کرنے اور حج کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور اگر اشعار پڑھنے والا بےریش نو خیز لڑکا ہو جس کی طرف طبیعت مائل ہوتی ہو ‘ یا عورتیں بھی اس مجمع کو جھانک کر دیکھ رہی ہوں تو یہ عین فسق ہے اور اس کے حرام ہونے پر اجماع ہے۔-

بعض لوگ تکلف سے سماع کرتے ہیں اس کی دو قسمیں ہیں ‘ ایک قسم یہ ہے کہ لوگ کسی مرتبہ کے حصول یا دنیاوی منفعت کے لیے سماع کرتے ہیں یہ تلبیس اور خیانت ہے ‘ اور حقیقت کی طلب کے لیے تکلف کرنا ہے جیسے کوئی شخص مصنوعی اور بناوٹی وجد خود پر طاری کر کے وجد کو طلب کرتا ہے ‘ فقہاء نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص اپے گھر میں بیٹھا ہو اور اس کے سامنے پورا قرآن مجید پڑھا جائے تو اگر وہ سچے جذب سے اپنے آپ کو گرادے تو فبہا ورنہ صاحب عقل کو چاہیے کہ وہ شیطان کو اپنے پیٹ میں داخل کرنے سے ڈرے ‘ اور اس کا سماع کے وقت نعرہ مارنا ‘ یا تالی بجانا یا کپڑے پھاڑنا یا رقص کرنا اگر لوگوں کو دکھانے یا سنانے کے لیے ہو تو اس سے بچنا لازم ہے۔-

دکھانے اور سنانے کے لیے سماع کے متعدد گناہ ہیں :-

دکھاوے کے لیے حال کھیلنے کی خرابیاں -

(1) وہ شخص اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے کہ اللہ نے اس پر وجد طاری کردیا ہے اور بےخودی اور جذب میں رقص کررہا ہے یا اس پر حال طاری ہے حالانکہ اللہ تعالی نے ایسا نہیں کیا ‘ اور اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنا بدترین گناہ ہے۔-

(2) وہ حاضرین محفل کو اس فریب میں مبتلا کرتا ہے وہ اس کے متعلق حسن ظن رکھیں اور لوگوں کو دھوکے میں ڈالنا خیانت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے ہم کو دھوکا دیا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٢٢٥ )-

(3) وہ اپنے کھڑے ہونے میں اور بیٹھنے میں دوسرے لوگوں کو اپنی موافقت اور اپنا ساتھ دینے پر ابھارتا ہے سو وہ لوگوں کو جھوٹ اور باطل کا مکلف کرنا ہے۔ آج کل محفل سماع میں جو لوگ حال کھیلتے ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر کا حال ایسا ہی ہوتا ہے (مصنف)-

سماع کی طرف میلان کی حسب ذیل وجوہ ہیں :-

سماع کے اسباب -

(1) انسان کی طبیعت خوش آوازی کی طرف مائل ہو اور یہ شہوت ہے اور حرام ہے ( یہ وجہ درست نہیں ہے۔ سعیدی غفرلہ)-

(2) انسان کے نفس میں نغمات اور خوش الحانی کی طرف میلان ہو یہ بھی حرام ہے کیونکہ یہ لذت شیطانی ہے جو مردہ قلب اور زندہ نفس کو حاصل ہوتی ہے اور دل کے مردہ ہونے کی علامات یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالی کو اور آخرت کو بھول جائے اور دنیا کے اشغال میں منہمک ہو اور اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہو اور ہر وہ دل جو دنیا کی محبت میں ملوث ہو اس کا سماع طبیعت کا سماع ہے اور تکلف ہے۔-

(3) اللہ تعالی کے افعال کے نور کے مطالعہ سے اس کے دل میں سماع کی طرف میلان ہو اور یہ عشق ہے اور حلال ہے کیونکہ یہ میالن رحمانی ہے اور زندہ دل اور مردہ نفس کو حاصل ہوتا ہے ( زندہ دل سے مراد یہ ہے کہ اس کا دل اللہ کی یاد سے زندہ ہو اور مردہ نفس سے مراد یہ ہے کہ اس کی حیوانی اور نفسانی خواہشات مرچکی ہوں ‘ ایسا شخص بغیر آلات موسیقی کے ان ہی اشعار کو سنے گا جن کا مضمون غیر شرعی نہ ہو) -

غلامہ غلام رسول سیعدی فرماتے 

مسلمان بزرگوں کا عرس کا عرس مناتے ہیں۔ عرس کی معنوی اصل یہ ہے۔ -

امام محمد بن عمر الواقد متوفی 2074 ھ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر سال شہداء احد کی قبروں کی زیارت کرتے تھے، جب آپ گھاٹی میں داخل ہوتے تو بہ آواز بلند فرماتے : السلام علیکم، کیونکہ تم نے صبر کیا، پس آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے ! پھر حضرت ابوبکر (رض) ہر سال اسی طرح کرتے تھے۔ پھر حضرت عمر بن الخطاب ہر سال اسی طرح کرتے تھے۔ پھر حضرت عثمان (رض) ۔ (کتاب المغازی، ج 1، ص 313، مطبوعہ عالم الکتب بیروت، 1404 ھ، دلائل النبوۃ، ج 3، ص 308، مطبوعہ بیروت، شرح الصدور، ص 210، دار الکتب العلمیہ، بیروت 404 ۔ در منثور، ج 4، ص 568، مصنف عبدالرزاق، 573 (قدیم) رقم الحدیث (جدید) 6745 ۔-

اور عرس کی لفظی اصل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ قبر میں منکر نکیر آ کر سوال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تم اس شخص کے متعلق کیا کہا کرتے تھے اور جب مردہ یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور کلمہ شہادت پڑھتا ہے تو اس کی قبر وسیع اور منور کردی جاتی ہے اور اس سے کہتے ہیں کہ اس عروس کی طرح سوجاؤ جس کو اس کے اہل میں سب سے زیادہ محبوب کے سوا کوئی بیدار نہیں کرتا۔ (الحدیث) (سنن الترمذی، رقم الحدیث : 1073، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)-

اس حدیث میں مومن کے لیے عروس کا لفظ وارد ہے اور عروس کا لفظ عرس سے ماخوذ ہے اور یہ عرس کی لفظی اصل ہے۔ عرس کی حقیقت یہ ہے کہ سال کے سال صالحین اور بزرگان دین کے مزارات کی زیارت کی جائے۔ ان پر سلام پیش کیا جائے اور ان کی تعریف و توصیف کے کلمات کہے جائیں اور اتنی مقدار سنت ہے، اور قرآن شریف پڑھ کر اور صدقہ و خیرات کا انہیں ثواب پہنچانا یہ بھی دیگر احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور ان کے وسیلہ سے دعا کرنا اور ان سے اپنی حاجات میں اللہ سے دعا کرنے اور شفاعت کرنے کی درخواست کرنا اس کا ثبوت امام طبرانی کی اس حدیث سے ہے جس میں عثمان بن حنیف نے ایک شخص کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے دعا کرنے اور آپ سے شفاعت کی درخواست کرنے کی ہدایت کی۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ (المعجم الصغیر، ج 1، ص 1184 ۔ 183، مطبوعہ مکتبہ سلفیہ، مدینہ منورہ، 1388 ھ، حافظ منذری متوفی 656 ھ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ (الترغیب والترہیب، ج 1، ص 474 ۔ 476، اور شیخ ابن تیمیہ متوفی 728 ھ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ فتاوی ابن تیمیہ، ج 1، ص 274 ۔ 273)-

اسی طرح امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں ایک بار قحط پڑگیا تو حضرت بلال بن حارث (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر عرض کیا : یارسول اللہ ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ ہلاک ہورہے ہیں۔ (الحدیث) (المصنف، ج 12، ص 32، مطبوعہ کراچی، حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کے متعلق فرمایا کہ اس کی سند صحیح ہے، فتح الباری، ج 2، ص 495 ۔ 496، مطبوعہ لاہور)-

ان تمام مباحث کی تفصیل کے لیے شرح صحیح مسلم جلد 7 کا مطالعہ فرمائیں۔-

خلاصہ یہ ہے کہ ہر سال صالحین کے مزارات کی زیارت کے لیے جانا، ان کو سلام پیش کرنا اور ان کی تحسین کرنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفاء راشدین کی سنت ہے۔ اور ان کے لیے ایصال ثواب کرنا اور ان کے وسیلہ سے دعا کرنا اور ان سے شفاعت کی درخواست کرنا بھی صحابہ کرام کی سنت ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، اور ہمارے نزدیک عرس منانے کا یہی طریقہ ہے۔ باقی اب جو لوگوں نے اس میں اپنی طرف سے اضافات کرلیے ہیں، وہ بزرگان دین کی نذر اور منت مانتے ہیں اور ڈھول، باجوں گا جوں کے ساتھ جلوس کی شکل میں ناچتے گاتے ہوئے اوباش لڑکے چادر لے کر جاتے ہیں اور چادر چڑھانے کی بھی منت مانی جاتی ہے اور مزارات پر سجدے کرتے ہیں اور مزار کے قریب میلہ لگایا جاتا ہے اور مزامیر کے ساتھ گانا بجانا ہوتا ہے اور موسیقی کی ریکارڈنگ ہوتی ہے تو یہ تمام امور بدعت سیئہ قبیحہ ہیں۔ علماء اہل سنت و جماعت ان سے بری اور بیزار ہیں۔ یہ صرف جہلاء کا عمل ہے اور ہم اللہ تعالی سے ان کی ہدایت کی دعا کرتے

علامہ ثعلبی لکھتے ہیں : جو شخص گانا گاتے وقت اپنی آواز بلند کرتا ہے تو اللہ تعالی اس پر دو شیطان بھیج دیتا ہے ایک اس کے ایک کندھے پر بیٹھ جاتا ہے اور دوسرا اس کے دوسرے کندھے پر بیٹھ جاتا ہے اور جب تک وہ گاتا رہتا ہے شیطان اس کو لاتوں سے مارتے رہتے ہیں۔-

دوسرے مفسرین نے کہا اس آیت کا محمل وہ لوگ ہیں جو قرآن مجید کو چھوڑ کر لہو ‘ معازف ‘ مزامیر اور غنا سنتے ہیں اور انہوں نے کہا اللہ کے راستہ سے مراد قرآن مجید ہے (معازف سے مراد وہ آلات غنا ہیں جن کو ہاتھوں سے بجایا جائے اور مزامیر سے مراد وہ آلات غنا ہیں جن کو منہ سے بجایا جائے)-

ابوالصہبا البکری بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے اس آیت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے تین بار قسم کھا کر فرمایا اس سے مراد غنا ہے ‘ ضحاک نے کہا غنا مال کو ضائع کرتا ہے ‘ رب کو ناراض کرتا ہے اور دل کو یاد الہتی سے غافل کرتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا یہ آیت اس شخص کے متعلق نازل ہوئی ہے جس نے ایک باندی خریدی جو اس کو دن رات گانا سناتی تھی ‘ اور ہر وہ بات جو اللہ کے راستہ سے غافل کرکے اس کے منع کیے ہوئے کام کی طرف لے جائے وہ لہو الحدیث ہے اور گانا بھی اسی قسم سے ہے۔ (الکشف والبیان ج ٧ ص ٣١٠‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢٢ ھ)-

غناء کی تحریم اور ممانعت میں قرآن مجید کی آیات -

علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے غنا کی تحریم میں حسب ذیل آیات پیش کی ہیں :-

(١) غناء کی تحریم میں ایک یہی زیر تفسیر آیت ہے یعنی لقمان : ٦۔ اس آیت سے علماء نے غناء کی کراہت اور ممانعت پر استدلال کیا ہے۔-

(٢) وانتم سمدون (النجم : ٦١ )-

اور تم کھیل میں پڑے ہوئے ہو۔-

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس سے مراد غنا ہے باندی سے کہا جائے اسمدی النا اس کا معنی ہے ہمیں گانا سنائو۔-

(٣) واستفزز من استطعت منھم بصوتک -

تو ان میں سے جن کو بھی اپنی آواز سے بہا سکتا ہو ‘ بہکالے۔ ( بنی اسرائیل : ٦٤ )-

مجاہد نے کہا اس سے مراد غنا اور مزامیر ہیں ‘ اس کی تفسیر سورة بنی اسرائیل میں گزر چکی ہے۔-

(الجامع الا حکام القرآن جز ١٤‘ دارالفکر ‘ تلبیس ابلیس ص ٢٣٧‘ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ١٤١٨ ھ)-

غناء کی تحریم اور ممانعت میں احادیث اور آثار -

علامہ قرطبی نے غنا کی تحریم اور ممانعت پر حسب ذیل احادث اور آثار سے استدلال کیا ہے :-

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو آوازیں ملعون اور فاجر ہیں میں ان سے منع کرتا ہوں ‘ مزمار کی آواز اور شیطان کی آواز جو کسی نغمہ اور خوشی کے وقت ہو ‘ اور کسی مصیبت کے وقت رونے پیٹنے اور گریبان پھاڑنے کی آوازیں۔ (امام ترمذی نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے)-

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٠٥‘ مسند عبدین حمید رقم الحدیث : ١٠٠٦)-

حضرت علی (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس امت میں زمین میں دھنسنا ‘ مسخ اور آسمان سے پتھر برسنا ہوگا ‘ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! اور یہ کب ہوگا ؟ آپ نے فرمایا جب گانے والیوں اور آلات موسیقی کا ظہور ہو اور شرابوں کو (کھلے عام) پیا جائے۔-

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢١٢‘ علل الترمذی رقم الحدیث : ٦٠٢‘ المسند الجامع رقم الحدیث : ١٠٩٢٣ )-

حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب میری امت میں پندرہ خصلتیں ہوں گی تو ان پر بلائوں کا نزول حلال ہوجائے گا ‘ آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ وہ کون سی خصلتیں ہیں آپ نے فرمایا (١) جب مال غنیمت کو ذاتی دولت بنا لیا جائے (٢) اور امانت کو مال غنیمت بنا لیا جائے (٣) اور زکوۃ کو جرمانہ سمجھا جائے (٤) اور آدمی اپنی بیوی کی اطاعت کرے (٥) اور ماں کی نافرمانی کی جائیں (٦) اور دوست کے ساتھ نیکی کرے (٧) اور باپ کے ساتھ بےوفائی کرے (٨) اور مساجد میں آوازیں بلند کی جائیں (٩) اور سب سے رذیل شخص کو قوم کا سردار بنا لیا جائے (١٠) اور کسی شخص کے شر سے بچنے کے لیے اس کی عزت کی جائے (١١) اور شرابیں (برسر عام) پی جائیں (١٢) اور ریشم پہنا جائے (١٣) اور گانے والیوں (١٤) اور آلات موسیقی کو رکھا جائے (١٥) اور اس امت کے بعد والے پہلوں کو برا کہیں ‘ اس وقت تم سرخ آندھیوں یا زمین میں دھنسنے کا اور مسخ کا انتظار کرو۔-

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢١٠‘ المسند الجامع رقم الحدیث : ١٠٣٨٦‘ تاریخ بغداد ج ٣ ص ١٥٨‘ ج ١٢ ص ٣٩٦)-

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب مال فے (کافروں کا چھوڑا ہوا مال) کو ذاتی دولت بنا لیا جائے اور امانت کو مال غنیمت بنا لیا جائے ‘ اور زکوۃ کو جرمانہ قرار دیا جائے ‘ اور دین کے علاوہ علم حاصل کیا جائے ‘ اور آدمی اپنی بیوی کی اطعت کرے اور اپنی ماں کی نافرمانی کرے ‘ اور اپنے دوست کو قریب رکھے اور اپنے باپ کو دور رکھے ‘ اور مسجدوں میں آوازوں کو بلند کیا جائے ‘ اور فاسق کو قبیلہ کا سردار بنایا جائے اور قوم کا سربراہ ذیل ہو ‘ اور کسی شخص کے شر کی بناء پر اس کی کی عزت کی جائے ‘ اور گانے والیوں اور آلات موسیقی کا ظہور ہو اور شرابیں پی جائیں اور اس امت کے پچھلے لوگ پہلوں پر لعنت کریں ‘ اس وقت تم سرخ آندھی کا اور زلزلہ کا اور زمین میں دھنسنے کا اور مسخ کا اور آسمان سے پتھر برسنے کا انتظار کرو اور ان نشانیوں کا انتظار کرو جو پے درپے آئیں گی۔-

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢١١‘ المسند الجامع رقم الحدیث : ٥٢٣٨)-

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کسی باندی کے پاس گانا سننے کے لیے بیٹھا اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیلا جائے گا۔ ( الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٨٤٢٨‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٠٢٤٠‘ حافظ سیوطی نے اس حدیث کو امام ابن عسا کر کے حوالہ سے ذکر کیا ہے اور اس حدیث کے ضعف کی طرف رمز کی ہے)-

حضرت ابو موسی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے گانیکو سنا قیامت کے دن اس کو جنت میں روحانیین کی آواز سننے کی اجازت نہیں ہوگی ‘ آپ سے پوچھا گیا کہ روحانیین کون ہیں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا وہ جنت کے قاری ہیں۔ اس حدیث کی سند بھی ضعیف ہے۔-

(نوادرالاصولج ٢ ص ٨٧‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٠٢٣٩‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٨٤٢٧‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٤٠٢٣٩)-

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جو شخص اس حال میں مرگیا کہ اس کے پاس گانے والی تھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھو۔ ( الجامع لا حکام القرآن جز ١٤ ص ٥١۔ ٤٩‘ دا الفکر بیروت ‘ تلبیس ابلیس لابن الجوزی ص ٢٤٠۔ ٢٣٨‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)-

جس قسم کے اشعار کا دف کے ساتھ یا بغیر دف کے سماع جائز ہے -

علامہ ابو عبد اللہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ فرماتے ہیں ان احادیث اور ان کے علاوہ دیگر احادیث اور آثار کی وجہ سے کہا گیا ہے کہ غنا حرام ہے۔ غنا سے مراد وہ معروف غنا ہے جس سے دلوں میں تحریک پیدا ہوتی ہے ‘ اس سے عشق میں جو لانی پیدا ہوتی ہے ‘ اس قسم کے اشعار میں عورتوں کا اور ان کے حسن کا ذکر ہو اور ان کی خوبیوں کا بیان ہو اور شراب اور دیگر محرمات کا ذکر ہو تو اس کے حرام ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ یہ لہو ہے اور موموم غنا ہے ‘ او جو اشعار ان چیزوں سے خالی ہوں ان کی قلیل مقدار کو خوشی کے ایام میں گانا جائز ہے ‘ مثلا  شادی اور عید کے ایام میں اور سخت مشقت کے کاموں کی مشقت کو سرور سے زائل کرنے کے قصد سے جیسا کہ خندق کھودنے کے موقع پر تھا ‘ یا جیسا کہ حبشی غلام انجثہ اور سلمہ بن اکوع نے اونٹوں کو چلاتے وقت غنا کیا۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٤ ص

مزامیر کی ایاجاد 

وہب بن منبہ بیان کرتے ہیں کہ مزا میر ‘ برابط اور صنوج (بانسریاں ‘ سارنگیاں اور جھا کبھنیں) کی ابتداء حضرت دائود کی آواز سے ہوئی ہے ‘ وہ اس قدر حسین آواز کے ساتھ زبور پڑھتے تھی کہ اس سے پہلے کانوں نے اتنی حسین آواز نہیں سنی تھی ‘ جن ‘ انسان ‘ پرندے اور چرندے ان کی آواز سننے کے لیے بیٹھ جاتے تھے یہاں تک کہ بعض بھوکے مرجاتے تھے ‘ حتی کہ ایک دن ابلیس خوف زدہ ہو کر باہر نکلا کیونکہ اس نے دیکھا کہ انسان اور چوپائے حضرت دائود کی قرأت کے حسن سے بہت متاثر اور بہت مانوس ہورہے ہیں اس نے اپنے سرداروں کو بلایا اور کہا تمہارے ہوتے ہوئے یہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا تم جو چاہتے ہو ہمیں اس کا حکم دو ‘ اس نے کہا ان کو زبور کے سننے سے صرف ایسی چیزروک سکتی ہے جس کی آواز کا حسن دائود کی آواز کے مشابہ ہو ‘ تب انہوں نے مزامیر ‘ برابط اور صنوج وغیرہ آلات غنا بنائے ‘ جب گمراہ لوگوں اور جنات نے ان آوازوں کو سنا تو وہ ان سازوں کی آوازوں کی طرف منتقل ہوگئے اور اسی طرح چو پائے اور پرندے بھی ‘ اور حضرت دائود بنو اسرائیل میں کھڑے ہو کر اللہ تعالی کے احکام بیان کرتے رہے ‘ وہ نبی ‘ حکیم ‘ عابد اور مجتہد تھے اور تمام نبیوں سے زیادہ عبادت میں کوشش کرتے تھے اور بہت روتے تھے۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٩١ ص ٣٧‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤

خلاصہ کلام قوالی مزامیر کے ساتھ سننا حرام ہے یہ احادیثہ سے ثابت کر دیا پھر حدیث نبوی کے ہوتے ہوئے کسی عالم کے جائز کہنے سے جائز نہیں ہو سکتا عالم کا وہی قول قابل قبول ہوگا جو قرآن و حدیث اور فقہا کے مطابق ہوگا ورنہ اس کا قول قابل قبول نہیں ہوگا  اس موضوع پر تفصیل سے جاننے کے لئے علامہ غلام رسول سیعدی رحمت اللہ علیہ کی شرح صحیح مسلم جلد دوم کو ملاحظہ فرمائے  واللہ اعلم ورسولہ 


کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی

Comments

Popular posts from this blog

जो निकाह पढ़ाए वहीं दस्तखत करे

کیا حضور پر جادو کا اثر ہوا تھا

راکھی باندھنا حرام ہے