جمعہ کے شرائط ؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ تمام علمائے کرام کی بارگاہ میں سوال ہے کہ کیا فرماتے علمائے دین اس مسءلے میں کہ ایک ایسا گاؤ ہے جہاں ایک سال سے لوگ جمعہ قائم کرتے ہیں مسجد نہیں ہے بلکہ قبرستان میں ادا کرتے ہیں تو کیا فرماتے ہیں
محمد شرجیل کوثر ویراول گجرات
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق
جمعہ کی نماز کے لئے 6 شرائط ہے اس میں سے کوئی ایک بھی مفقود تو جمعہ جائز نہیں مفتی امجد علی اعظمی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
مسئلہ ۱: جمعہ پڑھنے کے لیے چھ شرطیں ہیں کہ ان میں سے ایک شرط بھی مفقود ہو تو ہو گا ہی نہیں ۔
(۱) مصر یا فنائے مصر
مصر وہ جگہ ہے جس میں متعدد کُوچے اور بازار ہوں اور وہ ضلع یا پرگنہ (4) ہو کہ اس کے متعلق دیہات گنے جاتے ہوں اور وہاں کوئی حاکم ہو کہ اپنے دبدبہ و سَطوَت کے سبب مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے یعنی انصاف پر قدرت کافی ہے، اگرچہ ناانصافی کرتا اور بدلہ نہ لیتا ہو اور مصر کے آس پاس کی جگہ جو مصر کی مصلحتوں کے لیے ہو اسے ’’فنائے مصر‘‘ کہتے ہیں ۔ جیسے قبرستان، گھوڑ دوڑ کا میدان، فوج کے رہنے کی جگہ، کچہریاں ، اسٹیشن کہ یہ چیزیں شہر سے باہر ہوں تو فنائے مصر میں ان
کا شمار ہے اور وہاں جمعہ جائز۔ (1) ( غنیہ وغیرہا) لہٰذا جمعہ یا شہر میں پڑھا جائے یا قصبہ میں یا ان کی فنا میں اور گاؤں میں جائز نہیں ۔ (2) ( غنیہ )
مسئلہ ۲: جس شہر پر کفار کا تسلط ہوگیا وہاں بھی جمعہ جائز ہے، جب تک دارالاسلام رہے۔ (3) (ردالمحتار)
مسئلہ ۳: مصر کے لیے حاکم کا وہاں رہنا ضرور ہے، اگر بطور دورہ وہاں آگیا تو وہ جگہ مصر نہ ہوگی، نہ وہاں جمعہ قائم کیا جائے گا۔ (4) (ردالمحتار)
مسئلہ ۴: جو جگہ شہر سے قریب ہے مگر شہر کی ضرورتوں کے لیے نہ ہو اور اس کے اور شہر کے درمیان کھیت وغیرہ فاصل ہو تو وہاں جمعہ جائز نہیں اگرچہ اذان جمعہ کی آواز وہاں تک پہنچتی ہو۔ (5) (عالمگیری) مگر اکثر آئمہ کہتے ہیں کہ اگر اذان کی آواز پہنچتی ہو تو ان لوگوں پر جمعہ پڑھنا فرض ہے بلکہ بعض نے تو یہ فرمایا کہ اگر شہر سے دور جگہ ہو مگر بلا تکلیف واپس باہر جاسکتا ہو تو جمعہ پڑھنا فرض ہے۔ (6) (درمختار) لہٰذا جو لوگ شہر کے قریب گاؤں میں رہتے ہیں انھیں چاہیے کہ شہر میں آکر جمعہ پڑھ جائیں ۔
مسئلہ ۵: گاؤں کا رہنے والے شہر میں آیا اور جمعہ کے دن یہیں رہنے کا ارادہ ہے تو جمعہ فرض ہے اور اسی دن واپسی کا ارادہ ہو، زوال سے پہلے یا بعد تو فرض نہیں ، مگرپڑھے تو مستحقِ ثواب ہے۔ یوہیں مسافر شہر میں آیا اور نیت اقامت نہ کی تو جمعہ فرض نہیں ، گاؤں والا جمعہ کے لیے شہر کو آیا اور کوئی دوسرا کام بھی مقصود ہے تو اس سعی (یعنی جمعہ کے لیے آنے) کا بھی ثواب پائے گا اور جمعہ پڑھا تو جمعہ کا بھی۔ (7) (عالمگیری، درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۶: حج کے دنوں میں منیٰ میں جمعہ پڑھا جائے گا جبکہ خلیفہ یا امیر حجاز یعنی شریف مکّہ وہاں موجود ہو اور امیر موسم یعنی وہ کہ حاجیوں کے لیے حاکم بنایا گیا ہے جمعہ نہیں قائم کر سکتا۔ حج کے علاوہ اور دنوں میں منیٰ میں جمعہ نہیں ہوسکتا اور عرفات
میں مطلقاً نہیں ہو سکتا، نہ حج کے زمانہ میں ، نہ اور دنوں میں ۔ (1) (عالمگیری)
مسئلہ ۷: شہر میں متعدد جگہ جمعہ ہو سکتا ہے، خواہ وہ شہر چھوٹا ہو یا بڑا اور جمعہ دو مسجدوں میں ہو یا زیادہ۔ (2) (درمختار وغیرہ) مگر بلا ضرورت بہت سی جگہ جمعہ قائم نہ کیا جائے کہ جمعہ شعائر اسلام سے ہے اور جامع جماعات ہے اور بہت سی مسجدوں میں ہونے سے وہ شوکت اسلامی باقی نہیں رہتی جو اجتماع میں ہوتی، نیز دفع حرج کے لیے تعدد جائز رکھا گیا ہے تو خواہ مخواہ جماعت پراگندہ کرنا اور محلہ محلہ جمعہ قائم کرنا نہ چاہیے۔ نیز ایک بہت ضروری امر جس کی طرف عوام کو بالکل توجہ نہیں ، یہ ہے کہ جمعہ کو اور نمازوں کی طرح سمجھ رکھا ہے کہ جس نے چاہا نیا جمعہ قائم کر لیا اور جس نے چاہا پڑھا دیا یہ ناجائز ہے، اس لیے کہ جمعہ قائم کرنا بادشاہِ اسلام یا اس کے نائب کا کام ہے، اس کا بیان آگے آتا ہے اور جہاں اسلامی سلطنت نہ ہو وہاں جو سب سے بڑا فقیہ سُنی صحیح العقیدہ ہو، احکام شرعیہ جاری کرنے میں سُلطان اسلام کے قائم مقام ہے، لہٰذا وہی جمعہ قائم کرے بغیر اس کی اجازت کے نہیں ہوسکتا اور یہ بھی نہ ہو تو عام لوگ جس کو امام بنائیں ، عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطور خود کسی کو امام نہیں بنا سکتے نہ یہ ہو سکتا ہے کہ دو چار شخص کسی کو امام مقرر کر لیں ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں ۔
مسئلہ ۸: ظہراحتیاطی (کہ جمعہ کے بعد چار رکعت نماز اس نیت سے کہ سب میں پچھلی ظہر جس کا وقت پایا اور نہ پڑھی) خاص لوگوں کے لیے ہے جن کو فرض جمعہ ادا ہونے میں شک نہ ہو اور عوام کہ اگر ظہر احتیاطی پڑھیں تو جمعہ کے ادا ہونے میں انھیں شک ہو گا وہ نہ پڑھیں اور اس کی چاروں رکعتیں بھری پڑھی جائیں اور بہتر یہ ہے کہ جمعہ کی پچھلی چار سنتیں پڑھ کر ظہر احتیاطی پڑھیں پھر دو سنتیں اور ان چھ سنتوں میں سنت وقت کی نیت کریں ۔ (3) (عالمگیری، صغیری، ردالمحتار وغیرہا)
(۲) سلطان اسلام یا اس کا نائب جسے جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا (4)
مسئلہ ۹: سُلطان عادل ہو یا ظالم جمعہ قائم کرسکتا ہے۔ یوہیں اگر زبردستی بادشاہ بن بیٹھا یعنی شرعاً اس کو حق امامت نہ
ہو، مثلاً قرشی نہ ہو یا اور کوئی شرط مفقود ہو تو یہ بھی جمعہ قائم کر سکتا ہے۔ یوہیں اگر عورت بادشاہ بن بیٹھی تو اس کے حکم سے جمعہ قائم ہوگا، یہ خود نہیں قائم کر سکتی۔ (1) (درمختار، ردالمحتار وغیرہما)
مسئلہ ۱۰: بادشاہ نے جسے جمعہ کا امام مقرر کر دیا وہ دوسرے سے بھی پڑھوا سکتا ہے اگرچہ اسے اس کا اختیار نہ دیا ہو کہ دوسرے سے پڑھوا دے۔ (2) (درمختار)
مسئلہ ۱۱: امام جمعہ کی بلا اجازت کسی نے جمعہ پڑھایا اگر امام یا وہ شخص جس کے حکم سے جمعہ قائم ہوتا ہے شریک ہوگیا تو ہو جائے گا ورنہ نہیں ۔ (3) (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۲: حاکم شہر کا انتقال ہوگیا یا فتنہ کے سبب کہیں چلا گیا اور اس کے خلیفہ (ولی عہد) یا قاضی ماذون نے جمعہ قائم کیا جائز ہے۔ (4) (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۱۳: کسی شہر میں بادشاہ اسلام وغیرہ جس کے حکم سے جمعہ قائم ہوتا ہے نہ ہو تو عام لوگ جسے چاہیں امام بناویں ۔ یوہیں اگر بادشاہ سے اجازت نہ لے سکتے ہوں جب بھی کسی کو مقرر کرسکتے ہیں ۔ (5) (عالمگیری، درمختار)
مسئلہ ۱۴: حاکمِ شہر نابالغ یا کافر ہے اور اب وہ نابالغ بالغ ہوا یا کافر مسلمان ہوا تو اب بھی جمعہ قائم کرنے کا ان کو حق نہیں ، البتہ اگر جدید حکم ان کے لیے آیا یا بادشاہ نے کہہ دیا تھا کہ بالغ ہونے یا اسلام لانے کے بعد جمعہ قائم کرنا تو قائم کر سکتا ہے۔ (6) (عالمگیری)
مسئلہ ۱۵: خطبہ کی اجازت جمعہ کی اجازت ہے اور جمعہ کی اجازت خطبہ کی اجازت ہے اگرچہ کہہ دیا ہو کہ خطبہ پڑھنا اور جمعہ نہ قائم کرنا۔ (7) (عالمگیری)
مسئلہ ۱۶: بادشاہ لوگوں کو جمعہ قائم کرنے سے منع کر دے تو لوگ خودقائم کر لیں اور اگر اس نے کسی شہر کی شہریت باطل کر دی تو لوگوں کو اب جمعہ پڑھنے کا اختیار نہیں ۔ (8) (ر دالمحتار) یہ اس وقت ہے کہ بادشاہِ اسلام نے شہریت باطل کی ہو اور
کافر نے باطل کی تو پڑھیں ۔
مسئلہ ۱۷: امام جمعہ کو بادشاہ نے معزول کر دیا تو جب تک معزولی کا پروانہ نہ آئے یا خود بادشاہ نہ آئے معزول نہ ہوگا۔ (1) (عالمگیری)
مسئلہ ۱۸: بادشاہ سفر کر کے اپنے ملک کے کسی شہر میں پہنچا تو وہاں جمعہ خود قائم کر سکتا ہے۔ (2) (عالمگیری)
(۳) وقت ظہر
یعنی وقت ظہر میں نماز پوری ہو جائے تو اگر اثنائے نماز میں اگرچہ تشہد کے بعد عصر کا وقت آگیا جمعہ باطل ہوگیا ظہر کی قضا پڑھیں ۔ (3) (عامۂ کتب)
مسئلہ ۱۹: مقتدی نماز میں سو گیا تھا آنکھ اس وقت کھلی کہ امام سلام پھیر چکا ہے تو اگر وقت باقی ہے جمعہ پورا کر لے ورنہ ظہر کی قضا پڑھے یعنی نئے تحریمہ سے۔ (4) (عالمگیری وغیرہ) یوہیں اگر اتنی بھیڑ تھی کہ رکوع و سجود نہ کرسکا یہاں تک کہ امام نے سلام پھیر دیا تو اس میں بھی وہی صورتیں ہیں ۔ (5) (درمختار)
(۴) خطبہ
مسئلہ ۲۰: خطبہ جمعہ میں شرط یہ ہے، کہ:
(۱) وقت میں ہو اور
(۲) نماز سے پہلے اور
(۳) ایسی جماعت کے سامنے ہو جو جمعہ کے لیے شرط ہے یعنی کم سے کم خطیب کے سوا تین مرد اور
(۴) اتنی آواز سے ہو کہ پاس والے سُن سکیں اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو اگر زوال سے پیشتر خطبہ پڑھ لیا یا نماز کے بعد پڑھا یا تنہا پڑھا یا عورتوں بچوں کے سامنے پڑھا تو ان سب صورتوں میں جمعہ نہ ہوا اور اگر بہروں یا سونے والوں کے سامنے پڑھا یا حاضرین دور ہیں کہ سنتے نہیں یا مسافر یا بیماروں کے سامنے پڑھا جو عاقل بالغ مرد ہیں تو ہو جائے گا۔ (6) (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۱: خطبہ ذکر الٰہی کا نام ہے اگرچہ صرف ایک بار اَلْحَمْدُ للہ یا سُبْحٰنَ اللہ یا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہا اسی قدر سے فرض ادا ہوگیا مگر اتنے ہی پر اکتفا کرنا مکروہ ہے۔ (1) (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۲۲: چھینک آئی اور اس پر اَلْحَمْدُ للہ کہا یا تعجب کے طور پر سُبْحٰنَ اللہ یا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہا تو فرض ادا نہ ہوا۔ (2) (عالمگیری)
مسئلہ ۲۳: خطبہ و نماز میں اگر زیادہ فاصلہ ہو جائے تو وہ خطبہ کافی نہیں ۔ (3) (درمختار)
مسئلہ ۲۴: سنت یہ ہے کہ دو خطبے پڑھے جائیں اور بڑے بڑے نہ ہوں اگر دونوں مل کر طوال مفصّل سے بڑھ جائیں تو مکروہ ہے خصوصاً جاڑوں (4) میں ۔ (5) (درمختار، غنیہ )
مسئلہ ۲۵: خطبہ میں یہ چیزیں سنت ہیں :
(۱) خطیب کا پاک ہونا۔
(۲) کھڑا ہونا۔
(۳) خطبہ سے پہلے خطیب کا بیٹھنا۔
(۴) خطیب کا منبر پر ہونا۔ اور
(۵) سامعین کی طرف مونھ۔ اور
(۶) قبلہ کو پیٹھ کرنا اور بہتر یہ ہے کہ منبر محراب کی بائیں جانب ہو۔
(۷) حاضرین کا متوجہ بامام ہونا۔
(۸) خطبہ سے پہلے اَعُوْذُ بِاللہ آہستہ پڑھنا۔
(۹) اتنی بلند آواز سے خطبہ پڑھنا کہ لوگ سنیں ۔
(۱۰) الحمد سے شروع کرنا۔
(۱۱) اﷲ عزوجل کی ثنا کرنا۔
اﷲ عزوجل کی وحدانیت اور رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت دینا۔
(۱۳) حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر درود بھیجنا۔
(۱۴) کم سے کم ایک آیت کی تلاوت کرنا۔
(۱۵) پہلے خطبہ میں وعظ و نصیحت ہونا۔
(۱۶) دوسرے میں حمد و ثنا و شہادت و درود کا اعادہ کرنا۔
(۱۷) دوسرے میں مسلمانوں کے لیے دُعا کرنا۔
(۱۸) دونوں خطبے ہلکے ہونا۔
(۱۹) دونوں کے درمیان بقدر تین آیت پڑھنے کے بیٹھنا۔ مستحب یہ ہے کہ دوسرے خطبہ میں آواز بہ نسبت پہلے کے پست ہو اور خلفائے راشدین وعمّین مکرمین حضرت حمزہ و حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کا ذکر ہو بہتریہ ہے کہ دوسرا خطبہ اس سے شروع کریں :
اَلْحَمْدُ للہ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَنُؤْمِنُ بِہٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعُوْذُ بِاللہ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا مَنْ یَّھْدِی اللہ فَلَا مُضِلَّ لَـہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ھَادِیَ لَـہٗ ۔ (1)
(۲۰) مرد اگر امام کے سامنے ہو تو امام کی طرف مونھ کرے اور دہنے بائیں ہو تو امام کی طرف مڑ جائے۔ اور
(۲۱) امام سے قریب ہونا افضل ہے مگر یہ جائز نہیں کہ امام سے قریب ہونے کے لیے لوگوں کی گردنیں پھلانگے، البتہ اگر امام ابھی خطبہ کو نہیں گیا ہے اور آگے جگہ باقی ہے تو آگے جاسکتا ہے اور خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد میں آیا تو مسجد کے کنارے ہی بیٹھ جائے۔
(۲۲) خطبہ سننے کی حالت میں دو زانو بیٹھے جیسے نماز میں بیٹھتے ہیں ۔ (2) (عالمگیری، درمختار، غنیہ وغیرہا)
مسئلہ ۲۶: بادشاہ اسلام کی ایسی تعریف جو اس میں نہ ہو حرام ہے، مثلاً مالک رقاب الامم کہ یہ محض جھوٹ اور
حرام ہے۔ (1) (درمختار)
مسئلہ ۲۷: خطبہ میں آیت نہ پڑھنا یا دونوں خطبوں کے درمیان جلسہ نہ کرنا یا اثنائے خطبہ میں کلام کرنا مکروہ ہے، البتہ اگر خطیب نے نیک بات کا حکم کیا یا بُری بات سے منع کیا تو اسے اس کی ممانعت نہیں ۔ (2) (عالمگیری)
مسئلہ ۲۸: غیر عربی میں خطبہ پڑھنا یا عربی کے ساتھ دوسری زبان خطبہ میں خلط کرنا خلاف سنت متوارثہ ہے۔ یوہیں خطبہ میں اشعار پڑھنا بھی نہ چاہیے اگرچہ عربی ہی کے ہوں ، ہاں دو ایک شعر پندونصائح کے اگر کبھی پڑھ لے تو حرج نہیں ۔
(۵) جماعت یعنی امام کے علاوہ کم سے کم تین مرد
مسئلہ ۲۹: اگر تین غلام یا مسافر یا بیمار یا گونگے یا اَن پڑھ مقتدی ہوں تو جمعہ ہو جائے گا اور صرف عورتیں یا بچے ہوں تو نہیں ۔ (3) (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۳۰: خطبہ کے وقت جو لوگ موجود تھے وہ بھاگ گئے اور دوسرے تین شخص آگئے تو ان کے ساتھ امام جمعہ پڑھے یعنی جمعہ کی جماعت کے لیے انھیں لوگوں کا ہونا ضروری نہیں جو خطبہ کے وقت حاضر تھے بلکہ ان کے غیر سے بھی ہوجائے گا۔ (4) (درمختار)
مسئلہ ۳۱: پہلی رکعت کا سجدہ کرنے سے پیشتر سب مقتدی بھاگ گئے یا صرف دو رہ گئے تو جمعہ باطل ہوگیا سرے سے ظہر کی نیت باندھے اور اگر سب بھاگ گئے مگر تین مرد باقی ہیں یا سجدہ کے بعد بھاگے یا تحریمہ کے بعد بھاگ گئے تھے مگر پہلے رکوع میں آکر شامل ہوگئے یا خطبہ کے بعد بھاگ گئے اور امام نے دوسرے تین مردوں کے ساتھ جمعہ پڑھا تو ان سب صورتوں میں جمعہ جائز ہے۔ (5) (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۳۲: امام نے جب اللہ اَکْبَر کہا اس وقت مقتدی باوضو تھے مگر انہوں نے نیت نہ باندھی پھر یہ سب بے وضو ہو گئے اور دوسرے لوگ آگئے یہ چلے گئے تو ہوگیا اور اگر تحریمہ ہی کے وقت سب مقتدی بے وضو تھے پھر اور لوگ آگئے تو امام
سرے سے تحریمہ باندھے۔ (1) (خانیہ)
(۶) اذن عام
یعنی مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے کہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے کسی کی روک ٹوک نہ ہو، اگر جامع مسجد میں جب لوگ جمع ہو گئے دروازہ بند کر کے جمعہ پڑھا نہ ہوا۔ (2) (عالمگیری)
مسئلہ ۳۳: بادشاہ نے اپنے مکان میں جمعہ پڑھا اور دروازہ کھول دیا لوگوں کو آنے کی عام اجازت ہے تو ہوگیا لوگ آئیں یا نہ آئیں اور دروازہ بند کر کے پڑھا یا دربانوں کو بٹھا دیا کہ لوگوں کو آنے نہ دیں تو جمعہ نہ ہوا۔ (3) (عالمگیری)
مسئلہ ۳۴: عورتوں کو اگر مسجد جامع سے روکا جائے تو اذن عام کے خلاف نہ ہو گا کہ ان کے آنے میں خوفِ فتنہ ہے۔ (4) (ردالمحتار)
جمعہ واجب ہونے کے لیے گیارہ شرطیں ہیں ۔ ان میں سے ایک بھی معدوم ہو تو فرض نہیں پھر بھی اگر پڑھے گا تو ہوجائے گا بلکہ مرد عاقل بالغ کے لیے جمعہ پڑھنا افضل ہے اور عورت کے لیے ظہر افضل، ہاں عورت کا مکان اگر مسجد سے بالکل متصل ہے کہ گھر میں امام مسجد کی اقتدا کر سکے تو اس کے لیے بھی جمعہ افضل ہے اور نابالغ نے جمعہ پڑھا تو نفل ہے کہ اس پر نماز فرض ہی نہیں ۔ (5) (درمختار، ردالمحتار)
(۱) شہر میں مقیم ہونا
(۲) صحت یعنی مریض پر جمعہ فرض نہیں مریض سے مراد وہ ہے کہ مسجد جمعہ تک نہ جاسکتا ہو یا چلا تو جائے گا مگر مرض بڑھ جائے گا یا دیر میں اچھا ہوگا۔ (6) ( غنیہ ) شیخ فانی مریض کے حکم میں ہے۔ (7) (درمختار)
مسئلہ ۳۵: جو شخص مریض کا تیماردار ہو، جانتا ہے کہ جمعہ کو جائے گا تو مریض دِقتوں میں پڑ جائے گا اور اس کا کوئی پرسانِ حال نہ ہوگا تو اس تیماردار پر جمعہ فرض نہیں ۔ (8) (درمختار وغیرہ)
آزاد ہونا۔ غلام پر جمعہ فرض نہیں اور اس کا آقا منع کر سکتا ہے۔ (1) (عالمگیری)
مسئلہ ۳۶: مکاتب غلام پر جمعہ واجب ہے۔ یوہیں جس غلام کا کچھ حصہ آزاد ہو چکا ہو باقی کے لیے سعایت کرتا ہو یعنی بقیہ آزاد ہونے کے لیے کما کر اپنے آقا کو دیتا ہو اس پر بھی جمعہ فرض ہے۔ (2) (عالمگیری، درمختار)
مسئلہ ۳۷: جس غلام کو اس کے مالک نے تجارت کرنے کی اجازت دی ہو یا اس کے ذمہ کوئی خاص مقدار کما کر لانا مقرر کیا ہو اس پر جمعہ واجب ہے۔ (3) (عالمگیری)
مسئلہ ۳۸: مالک اپنے غلام کو ساتھ لے کر، مسجد جامع کو گیا اور غلام کو دروازہ پر چھوڑا کہ سواری کی حفاظت کرے تو اگر جانور کی حفاظت میں خلل نہ آئے پڑھ لے۔ (4) (عالمگیری)
مسئلہ ۳۹: مالک نے غلام کو جمعہ پڑھنے کی اجازت دے دی جب بھی واجب نہ ہوا اور بلااجازت مالک اگر جمعہ یا عید کو گیا اگر جانتا ہے کہ مالک ناراض نہ ہو گا تو جائز ہے ورنہ نہیں ۔ (5) (ردالمحتار)
مسئلہ ۴۰: نوکر اور مزدور کو جمعہ پڑھنے سے نہیں روک سکتا، البتہ اگر مسجد جامع دور ہے تو جتنا حرج ہوا ہے اس کی مزدوری میں کم کر سکتا ہے اور مزدور اس کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتا۔ (6) (عالمگیری)
(۴) مرد ہونا
(۵) بالغ ہونا
(۶) عاقل ہونا۔ یہ دونوں شرطیں خاص جمعہ کے لیے نہیں بلکہ ہر عبادت کے وجوب میں عقل و بلوغ شرط ہے۔
(۷) انکھیارا ہونا۔ (7)
مسئلہ ۴۱: یک چشم اور جس کی نگاہ کمزور ہو اس پر جمعہ فرض ہے۔ یوہیں جو اندھا مسجد میں اذان کے وقت با وضو ہو
اس پر جمعہ فرض ہے اور وہ نابینا جو خود مسجد جمعہ تک بلا تکلّف نہ جا سکتا ہو اگرچہ مسجد تک کوئی لے جانے والا ہو، اُجرتِ مثل پر لے جائے یا بلا اُجرت اس پر جمعہ فرض نہیں ۔ (1) (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۴۲: بعض نابینا بلا تکلّف بغیر کسی کی مدد کے بازاروں راستوں میں چلتے پھرتے ہیں اور جس مسجد میں چاہیں بلا پُوچھے جا سکتے ہیں ان پر جمعہ فرض ہے۔ (2) (ردالمحتار)
(۸) چلنے پر قادر ہونا۔
مسئلہ ۴۳: اپاہج پر جمعہ فرض نہیں ، اگرچہ کوئی ایسا ہو کہ اسے اٹھا کر مسجد میں رکھ آئے گا۔ (3) (ردالمحتار)
مسئلہ ۴۴: جس کا ایک پاؤں کٹ گیا ہو یا فالج سے بیکار ہوگیا ہو، اگر مسجد تک جا سکتا ہو تو اس پر جمعہ فرض ہے ورنہ نہیں ۔ (4) (درمختار وغیرہ)
(۹) قید میں نہ ہونا، مگر جب کہ کسی دَین کی وجہ سے قید کیا گیا اور مالدار ہے یعنی ادا کرنے پر قادر ہے تو اس پر فرض ہے۔ (5) (ردالمحتار)
(۱۰) بادشاہ یا چور وغیرہ کسی ظالم کا خوف نہ ہونا، مفلس قرضدار کو اگر قید کا اندیشہ ہو تو اس پر فرض نہیں۔ (6) (ردالمحتار)
(۱۱) مینھ یا آندھی یا اولے یا سردی کا نہ ہونا یعنی اسقدر کہ ان سے نقصان کا خوف صحیح ہو۔ (7)
مسئلہ ۴۵: جمعہ کی امامت ہر مرد کر سکتا ہے جو اور نمازوں میں امام ہو سکتا ہو اگرچہ اس پر جمعہ فرض نہ ہو جیسے مریض مسافر غلام۔ (8) (درمختار) یعنی جبکہ سلطان اسلام یا اس کا نائب یا جس کو اس نے اجازت دی بیمار ہو یا مسافر تو یہ سب نمازجمعہ پڑھا سکتے ہیں یا انہوں نے کسی مریض یا مسافر یا غلام یا کسی لائق امامت کو اجازت دی ہو یا بضرورت عام لوگوں نے کسی ایسے کو امام مقرر کیا ہو جو امامت کر سکتا ہو، یہ نہیں کہ بطور خود جس کا جی چاہے جمعہ پڑھاوے کہ یوں جمعہ نہ ہوگا۔(بہار شریعت باب جمعہ )
خلاصہ کلام ہر جگہ جمعہ قائم کرنا اور ہر ایک کو جمعہ قائم کرنے کا اختیار نہیں ہے جہاں پہلی بار جمعہ قائم کرنا ہو تو دارالافتاء میں حاضر ہوں کر اجازت لینی ہوگی واللہ اعلم و رسولہ
کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی
دارالافتاء فیضان مدینہ آنلائن
تاریخ 5 مئی بروز جمعرات 2022
Comments
Post a Comment