نکاح کوئی بھی پڑھا سکتا ہے
السلام علیکم و رحمتہ الله وبرکاتہ بسم الله الرحمن الرحیم علماء کرام ومفتیان عظام اس مسلہ میں رہنمائی فرمائیں کہ ہمارے قریہ (گام) میں مسلم آبادی غالباً تیس گھر ہیں۔ مسجد نہیں ہے عبادت گاہ ہے۔ جبکہ عبادت گاہ میں پنجگانہ نماز اکثر وبیشتر باجماعت ہوتی ہے جبکہ زید کہتا ہے عبادت گاہ کا امام نکاح نہیں پڑھا سکتا نکاح پڑھانے کے لئے مسجد کا امام ہونا ضروری ہے زید کے قول میں کتنی صداقت ہے جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع فراہم کریں۔ ساءل قاری عبدالکریم اکبری مقام پوسٹ بَھونِیا. تحصیل سیڑوا. ضلع باڑمیر راجستھان
ولیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب وباللہ توفیق نکاح پڑھانے کے لئے نہ قاضی کی ضرورت نہ مسجد کے امام کی ضرورت نکاح کوئی بھی پڑھا سکتا ہے چاہے مرد و عورت دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول خود کرلیں جیسا کہ سیدی امام احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہے قاضی کوئی شرط نکاح نہیں آدمی جس سے چاہے نکاح پڑھوائے چاہے مرد و زن دو گواہوں کے سامنے خود ایجاب و قبول کر لیں اس نام کے قاضی کے لئے شرعا کچھ اختیار ہیں (تلخیص رضویہ جلد سوم باب نکاح صفہ ۳۴۹) زید جاہل ہے غلط کہتا ہے نکاح پڑھانے کے لئے کسی قاضی یا مسجد کے امام کی ضرورت نہیں یہ تو ہمارے یہاں عرف ہے کہ نکاح لڑکی والوں کےگاؤں کا مولانا پڑھتا ہے اور عرف کے مطابق اسی کا حق ہے اگرچہ اس گاؤں میں مسجد نہ ہو گاؤں کے لوگوں کا جو دینی کام کرتا ہے نکاح اسی سے پڑھانا چاہے یا کوئی دوسرا پڑھائے تو اس کو اس کا ہدیہ ،دینا چاہے۔ زید نے کہاں کہ نکاح مسجد کا امام ہی پڑھائے غلط کہا اگر سچا ہے تو دلیل پیش کرے اللہ فرماتا: قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(111) آج تک نہ قرآن میں نہ حدیث میں نہ ائمہ کے کسی قول میں یہ ہے کہ نکاح مسجد کا امام ہی پڑھائے بلکہ حدیث میں حضرت ابو ہیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بے علم فتوی دے آسمان اور زمین کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہے (جامع احادیث جلد اوّل صفہ ۱۹۶ ) ( فتاوی رضویہ جلد ۷ صفہ ۳۹۲ ) زید اعلانیہ توبہ کرے اور سب کو کہے کہ میں نے غلط مسئلہ بتایا تھا اگر وہ توبہ نہ کرے تو فاسق ہے اس کی اقتدہ میں نماز مکرور تحریمی ہوگی
واللہ اعلم ورسولہ
کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی
دارلافتاء فیضان مدینہ آ لائن
Comments
Post a Comment