تو فارغ سے طلاق؟

*السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ اگر میاں بیوی کا جھگڑا ہو اور شوہر*

 *غصے میں اپنی بیوی کو کہے کہ اگر ایسا ہے تو تو مجھ سے فارغ ہے تو کیا ایسا کہنے سے طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر شوہر نے ایسا دو دفعہ کہا ہو تو کیا دو طلاقیں ہو جائیں گی المستفتی عبداللہ پاکستان*

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ 

الجواب وباللہ توفیق ۔۔۔صورت مسئولہ میں  فارغ ہے  یہ الفاظ عرف میں طلاق کے لئے بولے جاتے ہے ۔۔اور علماء نے فارغ خطی کے لفظ کو صریح طلاق میں شمار کیا ہے فتاوی بحر العلوم جلد سوم صفہ ۳۸۱) میں ہے یہ بات ظاہر ہوئی کہ فارغ خطی کا لفظ اپنی واضح کے لحاظ سے مطالبہ قرض سے برائت کے لئے تھا لیکن اب بہت سارے لوگوں میں یہ لفظ بلاقرائن بھی طلاق کے لئے بولا جاتا ہے اور بولنے والے کے عرف میں جو لفظ جس معنی کے لیے بولا جائے اسی کے موافق حکم لگایا جائےگا تو اس عرف کے لحاظ سے لفظ فارغ خطی طلاق میں صریح ہے اسی عبارت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کسی لفظ پر صریح یا بائن کا حکم لگانے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ سارے ملک کے لوگ اس کو اسی معنی میں بولیں بلک جس علاقہ اور قوم کے لوگ جس لفظ کو بلا قرائن جس معنی میں بولے ان کے لیے تو وہ لفظ اسی معنی میں ہوگا اور دوسروں کے لیے جن کا محاورہ اس علاقہ اور قوم کے خلاف ہو ان کے اپنے محاورہ کے اور عرف کے لحاظ سے  حکم لگے گا اس امر کی تشریح فتاوی رضویہ میں ہے اگر فارغ خطی دینا وہاں کے محاورہ  میں طلاق کے الفاظ صریحہ میں سمجھا جاتا ہو جب تو دو طلاق رجعی ہوئیں اور اگر یہ لفظ وہاں صریح نہ سمجھا جاتا ہو تو دو طلاقیں بائن ہوئیں ۔۔۔۔ خلاصہ سوال میں جو لفظ ہے کہ تو فارغ ہے اس سے طلاق بائن ہوئی مگر سائل کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے دارالافتاء اہلسنت سے رجوع کرے وہاں سے جو حکم ہو اس پر عمل کرے واللہ اعلم ورسولہ 



کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی 

دارالافتاء فیضان مدینہ

Comments

Popular posts from this blog

जो निकाह पढ़ाए वहीं दस्तखत करे

کیا حضور پر جادو کا اثر ہوا تھا

راکھی باندھنا حرام ہے