حرام مال سے قرض دینا
حرام مال سے قرض لینا؟
دارالافتا۶ - 18/11/2021
حرام مال اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ ایک شخص نے کسی کے پاس سے قرض کے طور پر کچھ رقم لی جو کہ حرام کی کمائی کی تھی پھر اس رقم سے کچھ دینی کتاب خریدی تو کیا اس کتاب کا پڑھنا جائز ہے؟ اور جانتے ہوئے کہ یہ حرام کی کمائی ہے قرض لینا کیسا؟ ساءل: صابر خان عطاری از:گیڈیا،سرندر نگر،گجرات وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق حرام پیسہ کسی بھی کام میں لانا شرعا ناجائز و حرام ہے سوائے اس کے کہ جس کا لیا ہو اسے دے دے جیسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ حرام روپیہ کسی کام میں لگانا اصلاً جائزنہیں، نیک کام ہو یا اور، سوا اس کے کہ جس سے لیا اُسے واپس دے یافقیروں پرتصدّق کرے۔ بغیر اس کے کوئی حیلہ اُس کے پاک کرنے کانہیں۔(فتاوی رضویہ جلد ۲۳؍ ص ۵۸۱؍دعوت اسلامی) لیکن اگر کسی نے قرض میں دیا تو قرض ادا ہو جا ئے گا اور لینے والے کے حق میں جا ئز ہو گا کہ دینے والے نے یہ کہہ کر نہیں دیا ہوگا کہ یہ مال حرام ہے ہاں اگر یہ کہہ کر دیتا کہ یہ مال حرام ہے تو لینا جائز نہ ہوتا مگر عموما ایسا نہیں ہوتا ہے سیدی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ حرام روپیہ مشتری کو دکھا کر کہااس کے بدلے فلا ں شے دے دے، اس نے دے دی، اس نے وہی حرام روپیہ قیمت میں دیا تو اب وہ شیٔ خبیث ہےکما ھوقول الامام الکرخی المفتی بہ کما فی التنویر وغیرہ ‘‘جیسا کہ امام کرخی کا مفتی بہ قول ہے جیسا کہ تنویر وغیرہ میں ہے۔ ( درمختار شرح تنویر الابصار ؍بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۱۶؍ص ۱۲۷؍دعوت اسلامی )نیز فرما تے ہیں کہ حرام روپیہ دکھاکر کہے اس کے عوض دے دے پھر قیمت میں وہی زر حرام دے، ایسا بہت کم ہوتا ہے،تو عام خریداریوں میں خبث آنا معلوم نہیں تو منع حکم نہیں۔سیدنا امام محمد فرماتے ہیں:بہ ناخذ مالم نعرف شیئا حرام بعینہ‘‘ہم اسی کو لیتے ہیں جب تک کسی معین شئ کا حرام ہونا ہمیں معلوم نہ ہو۔( فتاوٰی ہندیۃ کتاب الکراہیۃ الباب الثانی عشر فی الہدایا والضیافات نورانی کتب خانہ پشاور ۵؍ ۳۴۲؍بحوالہ فتاوی رضویہ جلد ۱۶؍ص ۴۸۸؍دعوت اسلامی )خلاصہ کلام یہ ہے کہ مال حرام کو لیناحرام ہے یونہی اس کو کسی کام میں لانا بھی حرام ہے خواہ وہ کام دینی ہو یا دنیاوی لیکن قرض خواہ کے حق میں وہ جائز ہے اور اس سے قرض بھی ادا ہوجا ئے گا البتہ قرض دینے والا گنہگار ہوگا بہتر یہ ہے کہ اس شخص کو اس کا مال حرام واپس کر دیں اور قرض کسی حلال کمانے والے سے دینی کتب مال حرام دے کر خریدی ہے تو اس کا استعمال جائز نہیں واللہ اعلم ورسولہ دارالافتاء فیضان مدینہ فقیر ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی عطاری تاریخ 26 ستمبر 2021 واضح رہے دارالافتاء فیضان مدینہ دعوت اسلامی کے ماتحت نہیں ہے
Comments
Post a Comment