میت کے گھر کھانا بھجیں

السلام علیکم کیا فرماتے ہیں علماے کرام اس مسۂلہ میں علاقہ مارواڑ سندھی مسلم سماج میں ایک رسم چل پڑی ہیں اوروہ رسم یہ ہے کہ اگر کسی کا انتقال ہوجاتاہے تو تدفین کے بعد فورن جو کھانا بنتاہے وہ کھانا انتقال کرنےوالےکی بیٹی کی طرف سے ہوتا ہےاور وہ ضروری سمجھتے ہیں کیایہ طریقہ صحیح ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماے ازقلم میرمحمد اکبری مقام پوسٹ چھاجالا تحصیل بھینمال ضلع جالور راجستھان
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ 
الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق 
صورت مسئولہ میں حکم یہ ہے کہ وہ کھانا لڑکی کے شوہر کی رضامندی سے ہوتا ہے تو جائز ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کھانا اس کے شوہر کی رضامندی ہی سے ہوتا ہے کیونکہ وہاں کا یہ ہی عرف رہا ہے اور عرف پر بھی فتوی دیا جاتا ہے بشرطیکہ عرف شریعت کے خلاف نہ ہو جیسا کہ رسم مفتی صفحہ 54 میں ہے عرف وہی معتبر ہوگا جو شریعت کے خلاف نہ ہو اور جو عرف کو نہیں جانتا وہ جاہل ہے!   خلاصہ کلام یہ رسم ہے اور اس پر شرعی ممانعت نہیں ہے کہ بیٹی کے گھر کا کھانا بھی جائز ہے بشرطیکہ اس کے شوہر کی رضامندی سے ہو لیکن بہتر یہ ہے کہ قریبی رشتہ دار میت کے گھر کھانا بھیجیں جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان پر ایک ایسا امر پیش آگیا ہے جس نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا ہے  (سنن ابی داؤد رقم الحدیث 3132 ) واللہ اعلم و رسولہ 
کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی 
دارالافتاء فیضان مدینہ آنلائن 
تاریخ 28 جون 2022


Comments

Popular posts from this blog

जो निकाह पढ़ाए वहीं दस्तखत करे

کیا حضور پر جادو کا اثر ہوا تھا

راکھی باندھنا حرام ہے