کیا معراج میں حضور نے اللہ کا دیدار کیا؟

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہے مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کیا معراج کی رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دیدار کیا تھا ?اگر ہاں تو حدیث عائشہ (رضی اللہ عنہا ) کیا جواب ہے جو شخص یہ کہے کہ شب معراج میں حضور صلی الله عليہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا، وہ جھوٹا ہے 
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب و باللہ توفیق تفسیر خزائن الارفان

ہے 

(ف14)
آنکھ نے یعنی سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک نے اس کی تصدیق کی جو چشم مبارک نے دیکھا ۔ معنی یہ ہیں کہ آنکھ سے دیکھا دل سے پہچانا اور اس رویت و معرفت میں شک وتردد نے راہ نہ پائی اب یہ بات کہ کیا دیکھا  بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ حضرت جبریل کو دیکھا لیکن مذہب صحیح یہ ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب تبارک و تعالی کو دیکھا اور یہ دیکھنا کس طرح تھا چشم سرسے یا چشم دل سے اس میں مفسرین کے دونوں قول پائے جاتے ہیں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کا قول ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رب عزوجل کو اپنے قلب مبارک سے دوبار دیکھا (رواہ مسلم) ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ آپ نے رب عزوجل کو حقیقتہ چشم مبارک سے دیکھا ۔ یہ قول حضرت انس بن مالک اور حسن و عکرمہ کا ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کو خلت اور حضرت موسی علیہ السلام کو کلام اور سید عالم محمد مصطفی کو اپنے دیدار سے امتیاز بخشا ۔ (صلوات اللہ تعالی علیہم) کعب نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام سے دوبار کلام فرمایا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی کو دو مرتبہ دیکھا ۔ (ترمذی) لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا نے دیدار کا انکار کیا اور آیت کو حضرت جبریل کے دیدار پر محمول کیا اور فرمایا کہ جو کوئی کہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا اس نے جھوٹ کہا اور سند میں لاتدرکہ الابصارتلاوت فرمائی ۔ یہاں چند باتیں قابل لحاظ ہیں ایک یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا قول نفی میں ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما کا اثبات میں اور مثبت ہی مقدم ہوتا ہے کیونکہ نافی کسی چیز کی نفی اس لئے کرتا ہے کہ اس نے سنا نہیں اور مثبت اثبات اس لئے کرتا ہے کہ اس نے سنا اور جانا تو علم مثبت کے پاس ہے علاوہ بریں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا نے یہ کلام حضور سے نقل نہیں کیا بلکہ آیت سے اپنے استنباط پر اعتماد فرمایا یہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھاکی رائے ہے اور آیت میں ادراک یعنی احاطہ کی نفی ہے نہ رویت کی ۔ 
مسئلہ : صحیح یہ ہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیدار الہی سے مشرف فرمائے گئے ۔ مسلم شریف کی حدیث مرفوع سے بھی یہی ثابت ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما جو بحرالامۃ ہیں ، وہ بھی اسی پر ہیں ۔ مسلم کی حدیث ہے رایت ربی بعینی وبقلبی میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اوراپنے دل سے دیکھا ۔ حضرت حسن بصری علیہ الرحمۃ قسم کھاتے تھے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج اپنے رب کو دیکھا ۔ حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما کا قائل ہوں حضو ر نے اپنے رب کو دیکھا اس کو دیکھا اس کو دیکھا ۔ امام صاحب یہ فرماتے ہی رہے یہاں تک کہ سانس ختم ہوگیا ۔
تفسیر نورالعرفان میں ہے 
19 ۔ یعنی حضور کی آنکھ نے رب کا جمال دیکھا اور دل نے تصدیق کردی کہ واقع صحیح دیکھا کوئی غلطی نہ ہوئی اگر حضور نے فقط دل سے خدا کو دیکھا ہوتا تو دل اس کا مصدق نہ ہوتا، دیکھنے والا اور ہوتا ہے تصدیق کرنے والا دوسرا، نیز موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح حجور پر اس وقت غشی نہ آئی بلکہ ا آنکھوں سے ٹکٹکی باندھ کر دیدار یار کیا، دل ہوش و ہو اس قائم رکھتے ہوئے کلام الہی سمجھتا رہا آنکھ کی تصدیق کرتا رہا، حضرت عائشہ دیدار الہی کا انکار فرماتی ہیں کیونکہ انہیں وہ احادیث نہ پہنچیں، اس لیئے انہوں نے دیدار نہ ہونے پر کوئی حدیث پیش نہ کی بلکہ آیت لا تدرکہ الابصار سے دلیل پکڑی حالانکہ اس آیت لاتدرک کے معنی یہ ہیں کہ آنکھیں دنیا میں رب کا ادراک نہیں کرسکتیں وہ دوسرا عالم تھا، جہاں حضور نے دیکھا پھر حضور نے نظارہ کیا ادراک نہ کیا ادراک گھیرنے سے ہوتا ہے۔
تفسیر صراط الجنان میں 
كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى: دل نے اس کوجھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔} یعنی سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قلب مبارک نے اس کی تصدیق کی جو چشمِ مبارک نے دیکھا ۔مراد یہ ہے کہ آنکھ سے دیکھا ،دِل سے پہچانا اور اس دیکھنے اور پہچاننے میں  شک اور تَرَدُّد نے راہ نہ پائی۔
حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا:
             اب رہی یہ بات کہ کیا دیکھا، اس بارے میں بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ حضرت جبریلعَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا، لیکن صحیح مذہب یہ ہے کہ سَرْوَرِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے رب تعالیٰ کو دیکھا۔ اور یہ دیکھنا کیا سر کی آنکھوں  سے تھا یا دل کی آنکھوں  سے، اس بارے میں  مفسرین کے دونوں  قول پائے جاتے ہیں  ایک یہ کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رب عَزَّوَجَلَّ کو اپنے قلب مبارک سے دیکھا۔
            اورمفسرین کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رب عَزَّوَجَلَّ کو حقیقتاً چشمِ مبارک سے دیکھا ۔
            یہ قول حضرت انس بن مالک،حضرت حسن اور حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خُلَّت اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کلام اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے دیدار سے اِمتیاز بخشا۔ حضرت کعب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دوبار کلام فرمایا اورسیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ کو دو مرتبہ دیکھا (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ والنجم، ۵ / ۱۸۴، الحدیث: ۳۲۸۹)   لیکن حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰیعَنْہَا نے حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دیدارِ الٰہی کا انکار کیا اوراس آیت کو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے دیدار پر محمول کیا اور فرمایا کہ جو کوئی کہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا اس نے جھوٹ کہا اور اس بات کی دلیل کے طور پر یہ آیت ’’ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ‘‘ تلاوت فرمائی ۔
            اس مسئلے کوسمجھنے کے لئے یہاں  چند باتوں  کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کا قول نفی میں  ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا اِثبات میں  اور جب نفی اور اثبات میں  ٹکراؤ ہو تو مُثْبَت ہی مُقَدّم ہوتا ہے کیونکہ نفی کرنے والا کسی چیز کی نفی اس لئے کرتا ہے کہ اُس نے نہیں  سنا اور کسی چیز کو ثابت کرنے والا اِثبات اس لئے کرتا ہے کہ اس نے سنا اور جانا تو علم ثابت کرنے والے کے پاس ہے۔اور ا س کے ساتھ یہ بھی ہے کہ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے یہ کلام حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نقل نہیں  کیا بلکہ آیت سے جو آپ نے مسئلہ اَخذ کیا اس پر اعتماد فرمایا اوریہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی اپنی رائے ہے جبکہ درحقیقت آیت میں  اِدراک یعنی اِحاطہ کی نفی ہے دیکھ سکنے کی نفی نہیں  ہے ۔
            صحیح مسئلہ یہ ہے کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دیدارِ الٰہی سے مُشَرَّف فرمائے گئے، مسلم شریف کی حدیث ِمرفوع سے بھی یہی ثابت ہے ،حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا جو کہ حِبْرُ الْاُمَّت ہیں  وہ بھی اسی پر ہیں ۔ حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ قسم کھاتے تھے کہ محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شبِ معراج اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا ۔ امام احمد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے تھے کہ حضو رِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا اُس کو دیکھا اُس کو دیکھا۔امام صاحب یہ فرماتے ہی رہے یہاں  تک کہ سانس ختم ہوگیا (پھر آپ نے دوسرا سانس لیا)۔(خازن، النجم، تحت الآیۃ: ۱۱، ۱۸، ۴ / ۱۹۲، ۱۹۴، روح البیان، النجم، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۲۲۲، ۲۲۳، ملتقطاً)
تفسیرالحسنات

 ما کذب الفؤاد۔ دل نے جھوٹ نہ کہا۔ 
ای فواد محمد صلی الہ علیہ وسلم۔ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قلب اطہر۔ 
ما رای ۔ ۔ جو دیکھا۔ 
ما راہ ببصرہ عن صورۃ جبریل (علیہ السلام) ۔ یعنی انہوں نے اپنی آنکھ سے جو شکل جبرائیل (علیہ السلام) سے دیکھا۔ 
مطلب یہ ہے کہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چشم مبارک نے جو دیکھا قلب اطہر نے اس کی تصدیق کی اور اسے جھوٹ نہ کہا۔ یعنی جو دیکھا قلب نے اسے کہا۔ اور جھوٹ کا خطرہ تک نہ گزرا۔ مارای۔ جو دیکھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دیکھا۔ تو اکثر مفسرین فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں دیکھا حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) اور عبد اللہ بن مسعود (رض) کا یہی قول ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا کہ ان کے چھ سو پر تھے۔ حضرت انس، حسن اور عکرمہ (رض) کا قول ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی آنکھ سے پروردگار عزوجل کو دیکھا۔ 
بصری نے ابن عباس علیہم رضوان سے نقل کیا ہے کہ اللہ عزوجل نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خلت سے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کلام سے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی رؤیت سے خاص کیا اس سلسلہ میں مذہب محقق یہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیدار الٰہی عزوجل نصیب ہوا۔ تاہم علماء کا اختلاف رؤیت قلبی اور رؤیت چشم میں ہے ایک طبقہ کا قول ہے کہ چشم دل سے دیکھا۔ جب کہ دوسرے کا چشم سر سے۔ مسلم شریف میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پروردگار عزوجل کو اپنے قلب اطہر سے دوبارہ دیکھا۔ ترمذی (رح) نے کعب احبار (رض) سے بھی یہی مروی ہے۔ البتہ ام المومنین سیدہ عائشہ (رض) نے رؤیت باری کا انکار کیا اور آیت مبارکہ لا تدرکہ الابصار تلاوت فرمائی۔ اب جبکہ صحابہ علیہم رضوان سے نفی و اثبات کے اقوال موجود ہیں تو اس صورت میں اثبات کا قول ہی قابل ترجیح ہے۔ 
چونکہ نفی عدم سمع کو مستلزم ہے اور مثبت کو تقدم حاصل ہے کہ اس میں یقینی سماعت ہے۔ اور راجح ہے اور لا تدرکہ 
الابصار میں نفی ادراک ہے اور رؤیت کی نفی نہیں ہے، میں کہتا ہوں کہ پچھلی آیت فاوحی الی عبدہ میں فاعلی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجح ہے۔ لہٰذا رؤیت بھی اس کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو اپنے دیدار سے سرفراز فرمائے تو اعتراض کہاں رہ جاتا ہے ۔ کیونکہ نفی رؤیت تو مخلوق کی طرف ہے کہ وہ نہیں دیکھ سکتی مگر اس میں یہ کہاں ہے کہ اللہ عزوجل چاہے تو نہیں دکھا سکتا۔ اس کی مثال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عرض کرنا ہے رب ارنی اور جواب میں لن ترنی یعنی تو نہیں دیکھ سکتا۔ تو اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ہم کسی کو نہیں دکھا سکتے یا کوئی بھی دیکھ نہیں سکتا۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دیکھنا خاص ہے جیسا کہ حدیث کعبیں گزرا۔ اور یہ خصوصیت انعام الٰہی عزوجل سے ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے رایت ربی بعینی وبقلبی میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اور اپنے دل سے دیکھا (مسلم) اور اس کا واضح مفہوم یہی ہے کہ آنکھ سے دیکھا ، دل سے پہچانا اور محقق مان لیا۔
واللہ اعلم ورسولہ 
ابواحمد ایم جے اکبری قادری حنفی 
تاریخ ۱۹جولائی ۲۰۲۲


Comments

Popular posts from this blog

जो निकाह पढ़ाए वहीं दस्तखत करे

کیا حضور پر جادو کا اثر ہوا تھا

راکھی باندھنا حرام ہے