عدت وفات میں باہر نکلنا
السلام علیکم و رحمۃ الله وبرکاتہ بسم الله الرحمٰن الرحیم کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسلہء ھٰذَا کے متعلق ایک ایسی عورت جو اپنے شہر کے انتقال کے بعد حالتِ عدت میں ہے اپنے قریبی رشتہ دار (جیسے والدین یا چچا پھوپھی ماموں خالہ بھتیجے بھانجےان میں سے کوئی بھی) کے انتقال کر جاءے تو کیا مذکورہ رشتہ داروں کے ہاں شرعی پردہ کے ساتھ جا سکتی ہے یا نہیں؟ اور نمبر (2) ایک اسلامی بہن حالت عدت میں ہے اور اس کے دو بیٹے الگ محلوں میں یا الگ شہروں میں رہتے ہیں تو کیا حالت عدت میں مذکورہ اسلامی بہن منتقل ہوسکتی ہے نہیں؟ ( ساءل نظام الدین اکبری رادھن پور ضلع پاٹن گجرات)
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب وباللہ توفیق ۔۔۔۔عدت والی پر لازم ہے کہ وہ اس مکان میں عدت گزارے جس میں جدائی اور موت کے وقت سکونت پذیر تھی ۔)فتاوی عالمگیری ،جلد1،صفحہ 535،مطبوعہ کوئٹہ(
درمختار میں ہے: ”تعتدان أی: معتدۃ طلاق و موت فی بیت وجبت فیہ و لا تخرجان منہ الا أن تخرج أو ینھدم المنزل أو تخاف انھدامہ أو تلف مالھا أو لا تجد کراء البیت و نحو ذٰلک من الضرورات فتخرج لأ قرب موضع الیہ“ یعنی موت اور طلاق کی عدت والی عورتیں اسی مکان میں عدت گزاریں جس میں عدّت واجب ہوئی ہو، اور وہاں سے نہ نکلیں سوائے یہ کہ ان کو زبردستی نکالا جائے یا وہ مکان گرجائے یا گرنے کا خطرہ ہو یا مال کے ضائع ہوجانے کا خطرہ ہو یا مکان کرایہ پر ہو اور عورت کرایہ نہ دے پائے، اور دیگر ایسی ضروریات کی وجہ سے مجبور ہو، تو قریب ترین مکان میں منتقل ہوجائے۔ (ردالمحتارعلی الدر المختار، جلد5، صفحہ229، مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے :’’ جس مکان میں عدت گزارنا واجب ہے ،اُس کو چھوڑ نہیں سکتی، مگر اُس وقت کہ اسے کوئی نکال دے ،مثلاً:طلاق کی عدت میں شوہر نے گھر میں سے اس کو نکال دیا، یا کرایہ کامکان ہے اور عدت عدتِ وفات ہے، مالک مکان کہتا ہے کہ کرایہ دے یا مکان خالی کر اور اس کے پاس کرایہ نہیں یا وہ مکان شوہر کا ہے، مگر اس کے حصہ میں جتنا پہنچا وہ قابل سکونت نہیں اورورثہ اپنے حصہ میں اسے رہنے نہیں دیتے یا کرایہ مانگتے ہیں اور پاس کرایہ نہیں یا مکان ڈھ رہا ہویا ڈھنے کا خوف ہو یاچوروں کاخوف ہو، مال تلف ہو جانے کا اندیشہ ہے یا آبادی کے کنارے مکان ہے اور مال وغیرہ کا اندیشہ ہے، تو ان صورتوں میں مکان بدل سکتی ہے۔‘‘
)۔ فتاوی اہلسنت بحوالہ بھار شریعت،جلد2،حصہ 8،صفحہ245،246،مکتبۃ المدینہ،کراچی )
خلاص سوال میں مزکورہ صورتوں میں عورت کو بہار نکلنے کی اجازت نہیں جہاں اجازت تھی وہ ہم نے بیان کر دیا
اللہ تعالی فرماتا ہے الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚ-فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۲۳۴){(2)
تم میں جو مرجائیں اور بی بیاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں پھر جب اُن کی عدت پوری ہو جائے تو تم پر کچھ مؤاخذہ نہیں اُس کام میں جو عورتیں اپنے معاملہ میں شرع کے موافق کریں اور اللہ (عزوجل) کو تمھارے کاموں کی خبر ہے ۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم ورسولہ
کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی
تاریخ ۷جولائی ۲۰۲۲
Comments
Post a Comment