نمازوں کے فدیہ میں قرآن دینا؟
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰهِ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے تھر علاقوں میں بعض جگہوں پر کئیں سالوں سے یہ رواج ہے کہ جب میت ہوتی ہے تو میت کے پاس میں بیٹھ کر قرآن شریف ایک دوسرے کو پکڑا کر کہتے ہیں اس میت کی جتنی نمازیں روزہ وغیرہ قضا ہوئی ہے اُن کے بدلے میں قرآن شریف ایک دوسرے کو دیکر بخشاتے ہیں مطلب ایک نے دوسرے کو دیا دوسرے بندے نے تیسرے کو دیا اور ساتھ میں یہی دوہراتے رہتے ہیں کہ اس میت کی جتنی نمازیں اور روزے قضاء ہوئے ہیں اِن کے بدلے میں میں قرآن مجید بخش کرتا ہوں تو دوسرے نے کہا کہ مینے قبول کیا قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل محمد علی سانواں
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب وباللہ توفیق آپ کے ضلع میں تو ماشاء اللہ علماء کرام کی ایک کثیر تادات موجود ہے پھر بھی یہ غلط طریقہ کیوں؟
علماء کو چاہے کہ سب سے پہلے اپنے لوگوں کو دین سکھائے اس طرح کرنے سے فدییہ ادا نہیں ہوتا حضرت علامہ سید محمد آمین بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہے ہمارے زمانہ کے اہل وصیوتوں کا حال ظہاہر ہو گیا ہے کیونکہ لوگوں میں سے جس زمہ بے شمار نمازیں اور ان کے علاوہ زکوتہ قربانیاں اور قسمیں ہوتی وہ ان سب کے لئے چند درہم کی وصیت کرتا ہے اور وہ اپنی وصیت کا زیادہ تر حصہ ختموں اور کلمہ طیبہ کے پڑھنے کے لئے معین کر دیتا ہے جن کے بارے میں ہمارے علما نے وصیت کے صحیح نہ ہونے کا قول کیا ہے اور یہ بیان کیا ہے کہ دنیا کی اشیا کے لئے قرائت جائز نہیں اور یہ وضاحت کی ہے کہ اسے لینے والا اور دینے والا دونوں گنہگار ہیں (فتاوی شامی جلد سوم صفہ ۶۷) سیدی امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ فرماتے ہے اس کے سوا یہ جو عوام میں رائج ہے کہ سارے فدیہ کے عوض ایک قرآن دے دیا کہ وہ تو بے بہا ہے یوں ادا نہیں ہوتا قرآن مجید بیشک بے بہا ہے مگر جو بے بہا یعنی کلام الہی کہ ورقوں میں لکھا ہے وہ مال نہیں ، نہ وہ دینے کی چیز ہے تو جو مال ہے یعنی کاغذ اور پٹھے اسی طرح قیمت معتبر ہوگی اور جب مقدار فدیہ کو نہ پہنچے گی فدیہ کیونکہ ادا ہوگا وھذا ظاھر جدا ( یہ نہایت ہی واضح) (فتاوی رضویہ جلد ۸ صفحہ ۱۶۵)
اب اگر کسی شخص کے ذمہ قضا نمازیں باقی ہوں اور وہ اپنی زندگی میں اس کو ادا نہ کرسکے تو اگر انتقال سے پہلے وہ یہ وصیت کرگیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میرے ترکہ میں سے ان نمازوں کا فدیہ ادا کردینا اور اس کے ترکہ میں مال بھی ہے تو ایسی صورت میں اس کے ورثاء پر مرحوم کے ایک تہائی ترکہ سے اس کی وصیت کو پورا کرنا ضروری ہوتاہے، اور ایک تہائی سے زائد میں وصیت نافذ کرنے کے لیے تمام ورثاء کی اجازت ضروری ہوگی، اور اگر مرحوم نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہیں کی تو ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر کوئی عاقل بالغ وارث اپنے حصے یا مال سے مرحوم کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنا چاہے تو یہ درست ہے، اور یہ اس کے وارث کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔
نیز ہر نماز کا فدیہ صدقۃ الفطر کی مقدار کے برابر (پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت) ہے،اور وتر کی نماز کے ساتھ روزانہ کے چھ فدیہ ادا کرنے ہیں۔
باقی نماز کے فدیہ سے متعلق شریعت میں صریح نص نہیں ہے، بلکہ روزے سے عاجز شخص کے فدیہ سے متعلق جو نصوص ہیں ، ان میں یہ احتمال ہے کہ اس کی علت ”روزہ رکھنے سے عاجز ہونا ہے“ اور یہ علت چوں کہ مرتے وقت نماز میں بھی پائی گئی ہے، اس لیے احتیاطًا نماز کے فدیہ کی وصیت کرنے کو لازم کیا گیا ہے، اور امام محمد رحمہ اللہ نے اس تعبیر یوں کی ہے کہ: ان شاء اللہ (اللہ کی ذات سے امید ہے کہ) یہ کافی ہوجائے گا، ورنہ کم از کم نفلی صدقہ ہوگا، اور اچھائی برائی کو مٹادیتی ہے۔ (ردالمتحار درمختار تنویر الابصار جلد سوم صفحہ ۶۵) واللہ اعلم ورسولہ
کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی
دارالافتاء فیضان مدینہ آنلائن
تاریخ ۷جولائی ۲۰۲۲
Comments
Post a Comment