چندہ بچ جاۓ ؟
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسٔلہ کے بارے میں کہ (عید میلاد النبی) صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر ہمنے چندہ جمع کیا تھا جس سے پروگرام کیا اس میں سے کچھ پیسے بچے ہوئے ہیں ہمارے محلے میں ایک مسجد ہے جس میں آمدنی بلکل نہیں ہے میلاد کے بچے ہوئے پیسے پگار میں ملاکر مسجد کے امام کو دے سکتے ہیں یا نہیں * ساءیل محمد صدام حسین قادری بامنور راجستھان
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق
صورت مسئولہ میں یہ رویہ آپ امام کی تنخواہ میں نہیں دے سکتے بلکہ اس رقم کا حکم یہ ہے کہ چندہ دینے والوں کو واپس لوٹائے
جیسا امام احمد رضا خان بریلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں چندہ کا جو روپیہ کام ختم ہو کر بچے لازم ہے چندہ دینے والوں کو حصہ رسید واپس دیا جائے یا وہ جس کام کے لیے اب اجازت دیں اس میں صرف ہو (بغیر ) ان کی اجازت کے صرف کرنا حرام ہے ہاں جب ان کا پتہ نہ چلے تو اب (حکم ) ہے کہ جس طرح کام کے لیے چندہ لیا تھا اسی طرح کے دوسرے کام میں (خرچ ) کرے مثلاً تعمیر مسجد کا چندہ تھا اور مسجد تعمیر ہو چکی باقی (بچے ہوئے روپے ) کسی مسجد کی تعمیر میں (خرچ کرے ) غیر تعمیر میں نہیں مثلاً کہ تعمیر مدرسہ میں صرف نہ کریں اور اس طرح دوسرا کام نہ پائیں تو وہ باقی روپیہ فقیروں کو تقسیم کر دیں (فتاوی رضویہ جلد 16 صفحہ 207 ) خلاصہ کلام اس رقم کو چندہ دینے والے کو واپس دینا ہوگا یا ان کی اجازت سے امام کی تنخواہ میں استعمال کر سکتے ہیں واللہ اعلم و رسولہ
کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی
دارالافتاء فیضان مدینہ آنلائن
تاریخ 23 نومبر 2022
Comments
Post a Comment