کیا عالم ہونے کے لیے سند ؟
کیا عالم اور مفتی ہونے کے لیے سند ضروری ہے
دارالافتا۶ - 21/11/2021
کیا عالم ہونے کے لیے سند ضروری ہے؟ دارالافتاء فیضان مدینہ آنلائن کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کیا عالم اور مفتی ہونے کے لیے سند کا ہونا ضروری ہے اور کیا اس کو کسی دارالعلوم میں پڑھنا ضروری ہے شرع میں عالم کس کو کہتے ہیں سائل محمد وارث قادری گجرات الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق ڈاکٹر فیض احمد چشتی لکھتے کیا عالم کے لیے سند یافتہ ہونا ضروری ہے ؟ محترم قارئینِ کرام : یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ کیا عالمِ دین وہی ہے جس کے پاس ایک کاغذ کا ٹکرا جس کو عام مفہوم میں سند سے تعبیر کرتے ہیں موجود ہو ؟ اگر ایسا ہی ہے تو آج کے جدید دور میں پرنٹنگ پریس کی سہولت موجود ہے جس کو عالم بننے کا جذبہ جاں گزیں ہو وہ پریس سے رابطہ کر کے ایک کیا سینکڑوں اسناد ترتیب دے لے ۔ یہ امر اہلِ نظر پر خوب عیاں ہے کہ میدانِ علم میں سند کی کوئی حیثیت نہیں ہے علم وہ ہے جو دل و دماغ میں ہو اور اس کا احساس اس صاحب کے قول و فعل سے ہوتا ہے ۔ عالم ہونے کےلیے نہ درسِ نظامی شرط ہے نہ اس کی محض سند کافی بلکہ علم چاہئے ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور پر آگاہ ہو اور مُستقِل ہو اور اپنی ضَروریات کو کتاب سے نکال سکے بِغیر کسی کی مدد کے ۔ علم کتابوں کےمُطالَعَہ سے اور عُلَماء سے سُن سُن کر بھی حاصِل ہو تا ہے ۔ (اَحکامِ شریعت حصّہ ۲ صفحہ ۲۳۱) معلوم ہوا عالم ہونے کےلیے درسِ نظامی کی تکمیل کی سند ضَروری ہے نہ ہی کافی نہ ہی عَرَبی فارسی وغیرہ کا جاننا شرط ، بلکہ علم درکار ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سند کوئی چیز نہیں بُہتیَرے سَنَد یافتہ مَحض بے بَہرہ (یعنی علْمِ دین سے خالی) ہوتے ہیں اور جنہوں نے سند نہ لی اِن کی شاگردی کی لیاقت بھی اُن سَنَد یافتوں میں نہیں ہوتی ، عِلْم ہونا چاہئے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۳ ص۶۸۳) امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سے جب اس قسم کا سوال ہوا تو آپ نے اس کا جواب ارشاد فرمایا : مسئلہ کیا فرماتے ہیں علماء دین اس باب میں کہ اگر کوئی شخص جس نے سوائے کتب فارسی اور اردو کے جو کہ معمولی درس میں پڑھی ہوں اور اوس نے کس مدرسہ اسلامیہ یا علماء گرامی سے کوئی سند تحصیل علم نہ حاصل کی ہو اگروہ شخص مفتی بنے یا بننے کا دعویٰ کرے اور آیات قرآنی اور احادیث کو پڑھکر اوس کا ترجمہ بیان کرے اور لوگوں کو باورکراوے کہ وہ مولوی ہے تو ایسے شحص کا حکم یافتوی اور اقوال قابل تعمیل ہیں یا نہیں اور ایسے شخص کا کوئی دوسرا شخص حکم نہ مانے تو اسکے لئے شریعت میں کیا حکم ہے ۔ الجواب : سند کوئی چیز نہیں بہتیرے سند یافتہ محض بے بہرہ ہوتے ہیں اور جنہوں نے سند نہ لی اون کی شاگردی کی لیاقت بھی ان سند یافتو ں میں نہیں ہوتی ۔ علم ہونا چاہیے اور علم الفتویٰ پڑھنے سے نہیں آتا جب تک مدتہا کسی طبیب حاذق کا مطب نہ کیا ہو ۔ مفتیان کامل کے بعض صحبت یافتہ کہ ظاہری درس تدریس میں پورے نہ تھے مگر خدمت علماء کرام میں اکثر حاضر رہتے اور تحقیق مسائل کاشغل اون کا وظیفہ تھا فقیر نے دیکھا ہے کہ وہ مسائل میں آجکل کے صد ہا فارغ التحصیلوں بلکہ مدرسوں بلکہ نام کے مفتیوں سے بدرجہا زائد تھے پس اگر شخص مذکورفی السوال خواہ بذات خود خواہ بفیض صحبت علماء کاملین علم کافی رکھتاہے جو بیان کرتاہے غالباً صحیح ہوتا ہے اس کی خطا سے اس کا صواب زیادہ ہے تو حرج نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ قدیم١٠/٢٣١،) مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : علم حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طالب علم بن کر کسی مدرسہ میں اپنا نام لکھائے اور پڑھے جیسا کہ رائج ہے بلکہ اس کا مطلب یہ کہ علمائے اہلسنت سے ملاقات کرکے شریعت کا حکم ان سے معلوم کرے یا معتبر اور مستند کتابوں کے ذریعہ حلال وحرام اور جائز وناجائز کی جانکاری حاصل کرے ۔ (علم اور علماء از مفتی جلال الدین امجدی ص٢٤) فتاوی عالمگیری مترجم کے مقدمے مولانا سید امیر علی لکھتے ہیں فقیہ ہونے کے لیے اللہ تَعَالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام جاننا کافی ہےخواہ عربی زبان میں جانے یا اردو میں احکام عربی زبان میں ہی پہنچانا ضروری نہیں آدمی مطلب کو کسی زبان میں جس کو خوب سمجھتا ہو ایمان و اسلام و عقائد کا مطلب سمجھ لے اور بتوفیق الٰہی اپنے دین کی فقہ حاصل کرے تاکہ عالم ہو کر علماء کے درجہ میں شامل ہو روایت ہے کہ جو شخص دین میں فقہ حاصل کرے اس کو اللہ تعالٰی رنج سے بچائے گا اور ایسی جگہ سے اس کو رزق عطا فرما دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو (فتاوی عالمگیری مترجم جلد 1 صفحہ 15 ) خلاصہ کلام یہ ہے کہ آدمی کے پاس علم ہونا چاہیے نہ کہ کاغذ کے ٹکڑے کی سند خود میں نے ایسے حضرات کو دیکھا ہے جن کے پاس قاری عالم کی سند ہے اور برسوں دارالعلوم میں پڑھا ہے مگر ان بچاروں کا حال یہ ہے کہ نہ تو انھیں عقائد کے مسائل کا پتہ ہے نہ ہی نماز کے مسائل جانتے ہیں اور مسجد میں خطیب و امام بن کے بیٹھے ہیں ان سے لاکھ درجہ مجھے دعوت اسلامی کے مبلغ لگتے ہیں جو ماشاء اللہ کافی علم رکھتے ہیں اگرچہ یہ عرفی عالم نہیں ہے مگر ان عالموں سے بہتر عالم کہلانے کا حق ہے بعض اوقات خطیب حضرات کا کیا پوچھنا ان کی شعلہ بیانی سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے اللہ سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائیں آمین ثم آمین فقیر ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی عطاری دارالافتاء فیضان مدینہ آنلائن
Comments
Post a Comment