چلہ پر فاتحہ پڑھنا ؟


السلام علیکم کیا فرماتے ہیں علماے کرام اس مسئلہ میں ایک گاؤں ایک درخت ہے اسکے نیجے ایک چلّہ بناہوا ہے اور اسکی کوئ حقیت نہی اسی جگہ پر لوگ فاتحہ نیاز کرتے ہیں اور ناریل پھوڑتے ہیں اور وہاں پے ہر سال جلسہ بھی ہوتا ہے اور اچھے خاصے علماء بھہی آتے ہیں بیان کرتے ہیں اور چلے اصلی حقیقت کیا ہے اور یہ سب ہورہا کیا صحیح قرآن حدیث کی روشنی جواب عنایت فرماے از قلم میر محمد اکبری مقام پوسٹ چھاجالا تحصیل بھینمال ضلع جالور راجستھان


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 


الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق 


چلہ اس کو کہتے ہیں جہاں کسی بزرگ نے عبادت کی ہو وہاں برکت کی نیت سے عبادت کرنی چاہئے نہ کہ وہاں میلہ لگایا جائے اور جہاں اصل چلہ نہیں اور وہاں فاتحہ خوانی کرنا اور جلسہ کرنا ناجائز ہے  اور اس جگہ علماء کا جانا اور خطاب کرنا ناجائز و گناہ ہے مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی منیب الرحمن صاحب فرماتے ہیں لوگ زیارت و فاتحہ کے لیے بھی آتے رہیے اور وہ اس حقیقت سے آشنا تھے اور وہ خاموش رہے ان کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرتے اور لوگوں کو روکتے انھیں نہ روکنا گناہ پر ان کی مدد کرنا ہے  (تفہیم المسائل جلد 12 صفحہ 82 ) اللہ تعالٰی فرماتا ہے وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪-


ترجمہ گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو ( المائدہ 2  ) 


ایسے علماء جو اس حقیقت کو جانتے ہوئے دنیاوی فائدہ کے لیے جاتے ہیں وہ سخت گنہگار مستحق عذاب ہے جیسا کہ بنی اسرائیل کے علماء کے متعلق قرآن مجید میں ہے كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(79)



 ترجمۂ کنز الایمان



جو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے ضرور بہت ہی برے کام کرتے تھے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت مفتی محمد  قاسم صاحب قادری فرماتے ہیں 


كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ:وہ ایک دوسرے کو کسی برے کام سے منع نہ کرتے تھے ۔}یہودیوں کی ایک سر کشی یہ تھی کہ انہوں نے برائی ہوتی دیکھ کر ایک دوسرے کو اس سے منع کرنا چھوڑ دیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو اُن کے علماء نے پہلے تو انہیں منع کیا، جب وہ باز نہ آئے تو پھر وہ علماء بھی اُن سے مل گئے اور کھانے پینے اُٹھنے بیٹھنے میں اُن کے ساتھ شامل ہوگئے اُن کی اسی نافرمانی اور سرکشی کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ  تعالیٰ نے حضرت داؤد اورحضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان سے اُن پر لعنت اُتاری۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۵، الحدیث: ۳۰۵۸) 


اس سے معلوم ہوا کہ برائی سے لوگوں کو روکنا واجب ہے اور گناہ سے منع کرنے سے باز رہنا سخت گناہ ہے۔ اس سے ان علماء کو اور بطورِ خاص ان پیروں کواپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی حاجت ہے کہ جواپنے ماننے والوں میں یا مریدین و معتقدین میں اِعلانِیَہ گناہ ہوتے دیکھ کر اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے منع کرنے سے لوگ گناہ سے باز آ جائیں گے پھر بھی ’’یا شیخ اپنی اپنی دیکھ ‘‘کا نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں۔



            حضرت ابراہیم بن عبدالرحمٰن عذری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اس علم کو ہر پچھلی جماعت میں سے پرہیز گار لوگ اٹھاتے رہیں گے اور وہ غُلُوّ کرنے والوں کی تحریفیں ، اہلِ باطل کے جھوٹے دعوؤں اور جاہلوں کی غلط تاویل و تشریح کو دین سے دور کرتے رہیں گے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الشہادات، باب الرجل من اہل الفقہ۔۔۔ الخ، ۱۰ / ۲۵۳، الحدیث: ۲۰۹۱۱)



            مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس میں غیبی بشارت ہے کہ تاقیامت میرے دین میں علماءے خیر پیدا ہوتے رہیں گے ۔ جو علمِ دین کو پڑھتے پڑھاتے اور تبلیغ کرتے رہیں گے۔ خیال رہے کہ گزشتہ صالحین کو سَلف اور پچھلوں کو خَلف کہا جاتا ہے لہٰذا ہر جماعت ِصالحین اگلوں کے لحاظ سے خلف اور پچھلوں کے لحاظ سے سلف ہے۔ حدیثِ پاک کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’یعنی مسلمانوں میں بعض جاہل علماء کی شکل میں نمودار ہو کر قرآن و حدیث کی غلط تاویلیں اور مَعنوی تحریفیں کردیں گے ،وہ مقبول جماعت ان تمام چیزوں کو دفع کرے گی ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ !آج تک ایسا ہورہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہوگا ،دیکھ لو علماءے دین کی سرپرستی نہ حکومت کرتی ہے نہ قوم لیکن پھر بھی یہ جماعت پیدا ہو رہی ہے اور خدمتِ دین برابر کررہی ہے۔(مراٰۃ المناجیح، کتاب العلم، الفصل الثانی، ۱ / ۲۰۱، تحت الحدیث: ۲۳۰ (تفسیر صراط الجنان )  حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی نے ایک فرشتے کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو اس کے رہنے والوں پر الٹ دو فرشتے نے عرض کیا  (یا اللہ ) اس بستی میں ایک تیرا ایسا بندہ ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی اللہ تعالٰی نے فرمایا اس سمیت اس بستی کو ان سب پر الٹ دو پس اس کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے بھی ناگواری کے اثرات نہ آئے (تفہیم المسائل جلد 12 صفحہ 84 ) امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فرضی مزار بنانا اور اس پر چادر وغیرہ چڑھانا اور اس پر فاتحہ پڑھنا اور اصل مزار کا سا ادب و لحاظ کرنا ناجائز و بدعت ہے  قبر بلا مقبور کی طرف بلانا اور اس کے لیے وہ افعال کرنا گناہ ہے جبکہ وہ اس پر مصر ہے اور باعلان اسے کر رہا ہے تو فاسق معلن ہے (فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ 425، 426، )


خلاصہ کلام اس چلہ پر جلسہ کرنا ناجائز ہے اس جگہ فاتحہ خوانی کرنا ناجائز ہے  علماء کو چاہے کہ مزارات پر جلسہ ہو تو پہلے تحقیق کر کے جائے کہ وہاں اصل مزار ہے بھی یا نہیں کاس یہ مسلمان فرضی مزارات بنانے کے بجائے مدرسہ اور مسجد کو آباد کرتے تو آج کافروں کی ٹھوکروں میں ذلت کی زندگی نہیں گزارتے واللہ اعلم و رسولہ 


کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی 


دارالافتاء فیضان مدینہ 


تاریخ 25 نومبر 2022 



Comments

Popular posts from this blog

जो निकाह पढ़ाए वहीं दस्तखत करे

کیا حضور پر جادو کا اثر ہوا تھا

راکھی باندھنا حرام ہے