بیوا کی عدت ؟
السلام علیکم کیا فرماتے علماے کرام اس مسئلہ میں اگر کسی عورت کا شوہر انتقال ہوجاے تو عدت چار مہنے دس دن ہے مگر اسکے باجود لوگ ایک مہینہ دس دن عدت پوری کروالتے ہیں یہ غلط ہے اگر کوئ جان بوجھ کے غلطی کرے اس پر کیا حکم ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماے از قلم میر محمد اکبری مقام پوسٹ چھاجالا تحصیل بھینمال ضلع جالور راجستھان
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق صورت مسئولہ میں بیوا عورت کی عدت چار ماہ دس دن ہے قال اللہ تعالٰی
وَالَّذِيۡنَ يُتَوَفَّوۡنَ مِنۡكُمۡ وَيَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا يَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِهِنَّ اَرۡبَعَةَ اَشۡهُرٍ وَّعَشۡرًا ۚ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ فِيۡمَا فَعَلۡنَ فِىۡٓ اَنۡفُسِهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ (سورتہ البقرة 234 )
ترجمہ:
اور جو لوگ تم میں سے مرجائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔ اور جب (یہ) عدت پوری کرچکیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح) کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
جن لوگوں نے ایک ماہ میں عدت ختم کرنے کا حکم دیا وہ غلط اور اگر جان بوجھ کر ایسا کیا ہے اور انھیں یہ معلوم ہے کہ عدت کی مدت قرآن سے ثابت ہے پھر بھی انھوں نے ایک ماہ کی عدت کو مقرر کیا اور حلال جانا تو یہ کفر ہے واللہ اعلم و رسولہ
کتبہ ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی
دارالافتاء فیضان مدینہ آنلائن
تاریخ 28 نومبر 2022
Comments
Post a Comment