دہات میں جمعہ اور آخر ظہر؟
گاؤں میں حاکم نہ ہو اس میں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں? کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں جس گاؤں میں حاکم نہ ہو اس میں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں سائل عبداللہ آدم پاکستان الجواب بـــــــــــِـاِسْمِـــــــــــــٖہ تـَعـــالٰـــــــــــــــی وباللہ توفیق گاؤں میں جہاں جمعہ کی تمام شرائط نہیں پائی جاتی وہاں جمعہ پڑھنا جائز نہیں جیسا کہ مفتی اعظم ہند فرماتے ہیں گاؤں میں جمعہ ناجائز ہے (لیکن ) جہاں (پہلے سے ) ہوتا ہو وہاں روکا نہ جانے کہ فتنہ ہے نیز یہ کہ وہ اتنے سے بھی جائیں گے انھیں آہستہ آہستہ اس کی تلقین کی جاے کہ وہ ظہر بھی پڑھ لیں اعلی حضرت قدس سرہ فرماتے ہیں جہاں عوام پڑھتے آئے ہیں وہاں انھیں اس سے روکنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو تو نہ روکا جاے صرف ظہر کے فرض پڑھنے کی تاکید کی جاے اور ایسے لوگ سمجھدار ہو کہ وہ مذہب کا حکم سمجھ کر گردن رکھ دیں اور کسی قسم کا فتنہ نہ ہو تو وہاں انھیں اقامت جمعہ سے روکا جائے جہاں فرض نہیں وہاں پڑھنا خلاف مذہب ہے جو فرض نہیں اسے فرض سمجھنا خلاف مذہب ہے اور جو فرض ہے ظہر اس کا ترک اور جہاں ظہر فرض ہے وہاں جمعہ سے اس کا ذمہ سے اتر جانا سمجھنا خلاف مذہب ہے ذکر تو ہے مگر مذہب حنفی کے خلاف ہے اس کی اقامت ہے اس کی اقامت سے وہاں فرض ظہر کی اضاعت ہے تو ذکر ہونا اور بات ہے اور بعض ائمہ کے طور پر صحیح ہونا اور بات ہے (فتاوی مفتی اعظم الہند جلد سوم صفحہ 122 ) ہاں لوگوں مسئلہ بتانا ضروری ہے پھر اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو سختی نہ کرے مگر بعض امام خود جانتے ہوئے بھی خاموش رہتے ہیں اور مسئلہ نہیں بتاتے تو وہ گنہگار ہوں گے جیسا کہ مفتی امجد علی اعظمی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں جس گاؤں کے لوگ جمعہ پڑھتے ہیں انھیں منع نہ کیا جائے مگر خود پڑھانا یا امامت کرنا اور مسئلہ شرعی کو چھپانا کیونکر ہو سکتا ہے بلکہ اگر یہ عالم ہے اور جمعہ کی امامت کرتا ہے اگرچہ بہ نیت نفل تو عوام کے خیالات کی اور تائد کرتا ہے (فتاوی امجدیہ جلد اول صفحہ 285 ) حضرت بحر العلوم مفتی عبد المنان رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں دیہات (گاؤں )میں جمعہ کی نماز نہیں ہے حدیث میں ہے لا جمعتہ ولا تشریق الا فی مصر جامع، عوام جہاں پڑھتے ہو وہاں انھیں منع نہیں کرنا چاہیے اور جہاں نہیں پڑھتے ہو وہاں جمعہ کی نماز قائم نہیں کرنا چاہیے وہاں باجماعت ظہر پڑھی جائے (فتاوٰی بحر العلوم جلد اول صفحہ 491 ) جس گاؤں میں جمعہ کی نماز ہوتی ہے مگر وہاں جمعہ مذہب حنفی پر جائز نہیں تو انھیں ظہر کی نماز باجماعت پڑھنی چاہے حضرت مفتی بحر العلوم عبد المنان رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں مذہب حنفی میں دیہات میں جمعہ اور عیدین کی نماز فرض نہیں تو جہاں یہ فرض ہی نہیں وہاں ظہر کی نماز ضرور اذان و اقامت اور جماعت سے پڑھنا چاہے ظاہر ہے کہ نماز فرض ہوگی اور جماعت سنت موکدہ اور اذان و اقامت بھی سنت ہوتی ہے جیسا پانچوں وقت کی نماز میں کچھ نماز فرض ہوتی ہے کچھ سنت ہوتی ہے اور بعض امور سنت قریب لبوجوب ہوتے ہیں اور کچھ امور مستحب ہوتے ہیں (فتاوٰی بحر العلوم جلد اول صفحہ 488 ) *بعد جمعہ چار رکعت فرض احتیاطی کا طریقہ* وہ شہر و قصبات میں شرائط جمعہ کے اجتماع میں اشتباہ واقع ہو ایسی جگہ ہمارے علماء کرام نے حکم دیا ہے کہ بعد جمعہ چار رکعت فرض احتیاطی اس نیت سے ادا کرے کہ پچھلی وہ ظہر جس کا میں نے وقت پایا اور اب تک ادا نہ کی یہ چار رکعتیں چاروں سنت بعدیہ جمعہ کے بعد پڑھے اور جس پر ظہر کی قضائے عمری نہ ہو وہ چاروں میں سورت بھی ملائے پھر جمعہ کی دو سنتیں ان رکعتوں کے بعد بہ نیت سنت وقت ادا کرے جمعہ پڑھتے وقت نیت صحیح و ثابت رکھے جمعہ کو صحیح سمجھ کر خاص فرض جمعہ کی نیت کرے اگر بہ نیت فرض ادا نہ کیا تو جمعہ یقیناً نہ ہوگا اور اب یہ چار رکعتیں نری احتیاطی نہ رہیں گے بلکہ ظہر پڑھنی فرض ہو جائے گی اور جب یوں نیت صحیح سے ادا کر چکا تو ان چاروں رکعتوں میں یہ نیت نہ کرے کہ آج کی ظہر پڑھتا ہوں بلکہ وہی گول نیت رکھے کہ جو پچھلی ظہر میں نے پائی اور ادا نہ کی اسے ادا کرتا ہوں خواہ وہ کسی دن کی ہو اس سے زیادہ خیالات پریشان نہ کرے یوں پڑھنے میں یہ نفع پائے گا کہ اگر شائد علم الٰہی میں بوجہ فوت بعض شرائط جمعہ نہ ہوا ہوگا تو یہ رکعتیں آج ہی ظہر ہو جائے گی اس صورت میں یہ ظہر وہ پچھلی ہے جس کا وقت اسے ملا اور ابھی ذمہ سے ساقط نہ ہوئی اور اگر جمعہ صحیح واقع ہو گیا تو آج سے پہلی کی جو ظہر اس کے ذمہ رہی ہوگی خواہ یوں کہ سرے سے پڑھی ہی نہ تھی یا کسی وجہ سے فاسد ہو گئی وہ ادا ہو جائے گی اور اگر کوئی ظہر نہ رہی ہوگی تو یہ رکعتیں نفل ہو جائے گی اسی لحاظ سے جس پر قضائے عمری نہ ہو یہ چاروں رکعتیں بھری پڑھیں کہ اگر نفل ہوئی اور سورت نہ ملائی تو واجب چھوٹ کر نماز مکروہ تحریمی ہوگی ہاں جس پر قضائے عمری ہے اسے پچھلی دو رکعت میں سورت ملانے کی ضرورت نہیں اس کے ہر فرض ہی ہوگے (فتاوٰی جاویدیہ جلد 3 صفحہ 131 بحوالہ فتاوٰی فیضان رضویہ صفحہ 203) واللہ اعلم و رسولہ فقیر ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی عطاری دارالافتاء فیضان مدینہ آنلائن تاریخ 28 جنوری 2022 بروز جمعہ
Comments
Post a Comment