نکاح فضولی کا طریقہ

کسی معاملہ میں فضولی وہ شخص کہلاتا ہے جو نہ اصیل ہو اور نہ وکیل، یعنی: جو شخص کسی دوسرے کی طرف سے اس کی اجازت کے بغیر اس کا معاملہ کرے، اس میں اسے وکیل نہ بنایا جائے؛ بلکہ وہ خود ہی یہ کام کرے، مثلاً زید کو آپ نے اپنے نکاح کا وکیل نہیں بنایا، اس نے اپنی مرضی سے آپ کا نکاح دو مسلمان مرد یا ایک مسلمان مرد اور دو مسلمان عورتوں کی موجودگی میں فاطمہ سے کردیا اور فاطمہ یا فاطمہ کے وکیل نے قبول کرلیا، یا فاطمہ نے یا اس کے وکیل نے شرعی گواہوں کی موجودگی میں آپ سے نکاح کیا اور مجلس میں موجود زید نے آپ کی جانب سے وہ نکاح قبول کرلیا حالاں کہ آپ نے زید کو اپنے نکاح کا وکیل نہیں بنایا تو ایسا نکاح فضولی کا نکاح کہلاتا ہے اور ایسا نکاح اس شخص کی اجازت پر موقوف رہتا ہے جس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کیا گیا، اگر وہ معلوم ہونے کے بعد رد کردے تو وہ رد ہوجاتا ہے اور اگر وہ منظور کرلے تونافذ ہوجاتا ہے، اور منظور کرنے کی دو صورتیں ہیں؛ ایک: زبان سے منظور کرنا، دوسرے: کوئی ایسا کام کرنا جو شرعاً منظوری پر دلالت کرتا ہو جیسے: کسی کاغذ پر نکاح کی منظوری لکھ دینا یا عورت کے پاس کل یا بعض مہر بھیج دینا وغیرہ۔ یہ عملی اجازت کی صورت فقہائے کرام کے نزدیک نکاح کرنے کے حکم میں نہیں ہے؛ اس لیے اس طرح فضولی کے نکاح کی عملی اجازت دینے کی صورت میں نکاح ہونا پایا جاتا ہے، اصیل (شوہر) کی طرف نکاح کرنا نہیں پایا جاتا؛ اس لیے جس نے نکاح کرنے پر طلاق معلق کی ہو، اس طرح نکاح ہونے پر اس کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اور یہ کاروائی چوں کہ دقیق ومشکل ہے؛ اس لیے علاقہ کے کسی معتبر ومستند سے زبانی طور پر اس کی مکمل صورت اچھی طرح سمجھ لی جائے، اس کے بعد ان کی نگرانی ورہنمائی میں یہ کاروائی انجام دی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ (۵): فضولی وکیل اور اصیل کا غیر ہوتا ہے، اور اصیل وہ ہے کہ جو کوئی معاملہ اپنے لیے کرے۔ اور وکیل وہ ہے جو دوسرے کا معاملہ اس کی اجازت سے کرے۔ اور فضولی وہ ہے جو دوسرے کا معاملہ اس کی اجازت اور وکالت کے بغیر کرے، جیسا کہ اوپر بھی تحریر کردیا گیا۔ (۶، ۹): اس کی صورت مع مثال اوپر ذکر کردی گئی۔ (۷): اصیل، وکیل کے علاوہ ہر شخص فضولی بن سکتا ہے، مثلاً بھائی، چچا، یا کوئی اور رشتہ دار، اور اگر لڑکا یا لڑکی عاقلہ وبالغہ ہو تو باپ بھی اس کی جانب سے فضولی ہوسکتا ہے۔ (۸): فضولی بنانے کے لیے کچھ کہنے یا کرنے کی ضرورت نہیں، کسی عالم کے سامنے پوری صورت حال رکھ دی جائے اور یہ کہہ دیا جائے کہ میں اس سے کسی ایسے طریقہ پر نکاح کرنا چاہتا ہوں کہ اس پر طلاق واقع نہ ہو، اور ان کو نکاح کا وکیل نہ بنایا جائے، پھر وہ اپنی مرضی سے آپ کا نکاح اس سے کرادیں۔ 


Comments

Popular posts from this blog

जो निकाह पढ़ाए वहीं दस्तखत करे

کیا حضور پر جادو کا اثر ہوا تھا

راکھی باندھنا حرام ہے