یا محمد کہنا ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جی مفتی صاحب آپ سے عرض کہ یا محمد پکارنا کیسا ہے
وعلکیم السلام
الجواب و باللہ توفیق
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پکارنا بعض علما۶ کرام نے منع لکھا ہے
👇👇👇
شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یا محمد کے معنی ہے اے محمد یعنی یہ کہنے والا حضور اقدس ﷺ کو ان کا نام لے کر پکار رہا ہے -اس میں حضور ﷺ کی بے ادبی ہے -جیسے ماں باپ کو انکا نام لیکر پکارنا بے ادبی ہے -کوئی لڑکا اگر اپنے باپ کو اسکا نام لے کر پکارے تو وہ گستاخ سمجھا جاۓگا باپ کو پکارا جاتا ہے تو نام نہیں لیا جاتا بلکہ ابا یا بابا کہ کر پکارا جاتا ہے جو ان کا منصب ہے ایسے ہی حضور اقدس ﷺ کو نام لیکر پکارنا اور یا محمد کہنا حضور کی بے ادبی ہے اگر حضور اقدس ﷺ کو پکارنا ہے تو انکا منصب ذکر کرکے پکارو یعنی یا نبی اللہ،یا حبیب اللہ،یا رسول اللہ کہ کر پکارو
اللہ پاک سورہ نور آیت نمبر -٦٣ میں ارشاد فرماتا ہے-
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ
ترجمہ کنزالعرفان:(اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے(سورہ نور -٦٣)
(فتاویٰ شارح بخاری جلد -١ صفحہ:٢٨٤) سورہ النور آیت ٦٣ کی تفیسیر میں حضرت علامہ *غلام رسول سیعدی* رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہے
بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ آپ کو یا رسول اللہ اور یا نبی اللہ کہہ کر بلائو۔ اس بناء پر بعض علماء نے لکھا ہے کہ یا محمد کہہ کر آپ کو نداء نہیں کرنی چاہیے، یا رسول اللہ اور یا نبی اللہ کہہ کر ندا کرنی چاہیے بلکہ جن احادیث میں آپ نے یا محمد کہنے کی تلقین کی ہے وہاں بھی یا رسول اللہ کہنا چاہیے، کیونکہ جب آپ کا رب آپ کو یا محمد کہہ کر نہیں پکارتا تو ہم غلاموں کی کیا مجال کہ ہم آپ کو آپ کا نام لے کر پکاریں اور ترک ادب کا ارتکاب کریں۔-
اس کا جواب یہ ہے کہ مجاہد اور قتادہ کی تفسیر میں یا محمد کہہ کر بلانے سے منع کیا ہے یا محمد کہہ کر آپ کو نداء کرنے سے منع نہیں کیا اور ہم یا محمد کہہ کر نداء کے قائل ہیں کیونکہ نداء میں اس کو متوجہ کرنا مقصود ہوتا ہے جس کو نداء کی جا رہی ہے اس کو بلانا مقصود نہیں ہوتا جیسے ہم یا اللہ کہتے ہیں تو اس سے مقصود اللہ تعالی کو بلانا نہیں ہوتا بلکہ اس کی ذات کو اپنی اور اپنے حال کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہوتا ہے، اسی طرح جب ہم یا محمد کہتے ہیں تو اس سے رسولاللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی ی طرف متوجہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور آپ کو بلانا نہیں ہوتا، اور مجاہد اور اقتادہ کی تفسیر میں یا محمد کہہ کر آپ کو بلانے سے منع فرمایا ہے اور آپ کو متوجہ کرنے سے منع نہیں فرمایا۔-
اس اعتراض کا دوسرا جواب یہ ہے کہ لفظ محمد کے دو لحاظ ہیں ایک اعتبار سے یہ آپ کا علم اور نام ہے اور اس اعتبار سے آپ کو نداء کرنی منع ہے یعنی آپ کا نام لے کر آپ کو بلانا منع ہے اور دوسرے اعتبار سے یہ آپ کی صفت ہے کیونکہ محمد کا معنی ہے جس کی بےحد حمد اور تعریف کی گئی ہو اور اس اعتبار سے آپ کو نداء کرنا اور آپ کو بلانا جائز ہے، اور مستند علماء نے ان دو لحاظوں کا ذکر کیا ہے۔-
علامہ ابن قیم جو زیہ متوفی ٧٥١ ھ لکھتے ہیں۔-
ویقال احمد فھو محمد کما یقال : علم فھو معلم و ھذا علم وصفۃ اجتمع فیہ الامران فی حقہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (جلاء الافہام ص ٩٢ فیصل آباد) ۔ کہا جاتا ہے اس کی حمد کی گئی تو وہ محمد ہے، جس طرح کہا جاتا ہے اس نے تعلیم دی تو وہ معلم ہے لہذا یہ (لفظ محمد) علم (نام) بھی ہے اور صفت بھی اور آپ کے حق میں یہ دونوں چیزیں جمع ہیں۔-
نیز علامہ ابن قیم لکھتے ہیں :-
والو صفیۃ فیھما لا تنا فی العلمیۃ و ان معناھما مقصود (جلاء الافہام ص ١١٣ فیصل آباد) محمد اور حمد میں وصفیت علمیت (نام ہونے) کے معانی نہیں ہے اور ان دونوں معنوں کا قصد کیا جاتا ہے۔-
ملا علی قاری متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں :-
او قصدبہ المعنی الوصفی دون المعنی العلمی (مرقات ج ١ ص ٥١ ملتان، ١٣٩٠ ھ) جب حضرت جبرائیل نے آپ کو یا محمد کہا تو اس لفظ محمد کے وصفی معنی کا ارادہ کیا اور علمی (نام کے) مراد کا ارادہ نہیں کیا۔-
صحیح مسلم ج ٢ ص ٤١٩ کراچی) ۔ (جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ تشریف لائے تو) مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام، راستوں میں پھیل گئے اور وہ نعرے لگا رہے تھے یا محمد، یا رسول اللہ، یا محمد یا رسول اللہ۔-
حافظ ابن کثیر، حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے زمانہ خلافت کے احوال میں لکھتے ہیں :-
وکان شعارھم یرمئذ یا محمداہ (البدایہ والنہایہ ج ٦ ص 324، قدیم) اس زمانہ میں مسلمانوں کا شعار یا محمداہ کہنا تھا۔-
حافظ ابن اثیر نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔ (الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٢٤٦، بیروت
اور آپ نے دعائے حاجت میں جو یہ کہنے کی تعلیم فرمائی ہے، یا محمد انی توجھت بک الہی ربی ” اے حمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے “ اس میں بھی یا محمد کے لفظ سے آپ کو بالنا مقصود نہیں ہے بلکہ آپ کو اپنی طرف متوجہ کرانا مقصود ہے، امام مسلم نے حضرت عمر (رض) سے روایت کیا ہے، کہ حضرت جبرائیل نے ایک عربی کی شکل میں حاضر ہو کر آپ سے کہا :-
یا محمد اخبرنی عن السلام (صحیح مسلم ج ١ ص 27 کراچی) اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اسلام کے متعلق بتایئے۔-
اس میں بھی یا محمد کے لفظ سے آپ کو بالن امقصود نہیں تھا آپ کو متوجہ کرنا مقصود تھا اور قرآن مجید میں نام کے ساتھ بلانے کی مانعت ہے، مطلقا نداء کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔-
یا محمد کہنے کے جواز کی تیسری وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات کسی کے نام کے ساتھ نداء بلانے کے لئے کی جاتی ہے نہ متوجہ کرنے کے لئے بلکہ محض اس کا ذکر کرنے اور اس کو یاد کرنے کے لئے، اس کے نام کے ساتھ نداء کرتے ہیں جیسے کوئی شخص یا اللہ یا اللہ کا وظیفہ کرتا ہے اور اس کے جواز پر واضح دلیل یہ حدیث ہے :-
امام بخاری روایت کرتے ہیں :-
عن عبدالرحمن بن سعد قال : خدرت رجل ابن عمر فقال لہ رجل : اذکر احب الناس الیک فقال یا محمد (الا ادب المفروص ٢٥٠ مطبوعہ مکتبہ اثریہ ساگنلہ ہل) عبدالرحمن بن سعد کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) کا پیرسن ہوگیا، ان سے ایک شخص نے کہا : جو تم کو سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہو اس کو یاد کرو انہوں نے کہا یا محمد۔-
اللہ تعالی کا یا محمد فرمانا -
امام بخاری، حضرت انس بن مالک (رض) سے معراج کی ایک طویل حدیث روایت کرتے ہیں اس میں ہے :-
فقال الجبار یا محمد قال لبیک و سعیک قال انہ لایبدل القول لدی کما فرضت علیک فی ام الکتاب فکل حسنۃ بعشرا مثالھا فھی خمسون فی ام الکتاب وھی خمس علیک۔ (صحیح البخاری ج ٢ ص 1121، کراچی)-
اللہ تعالی نے فرمایا یا محمد ! آپ نے کہا میں حاضر ہوں ! اللہ تعالی نے فرمایا میرے قول میں تبدیلی نہیں ہوتی، میں نے جس طرح آپ پر ام الکتاب میں (نمازیں) فرض کی ہیں، تو ہر نیکی دس گنی ہے، لہذا ام الکتاب میں پچاس نمازیں ہیں اور آپ پر پانچ نمازیں (فرض) ہیں۔-
امام مسلم، حضرت انس (رض) سے حدیث معراج روایت کرتے ہیں، اس میں ہے :-
فلم ارجع بین ربی و بین موسی (علیہ السلام) حتی قال یا محمد انھن خمس صلوات کل یوم ولیلۃ (صحیح مسلم ج ١ ص 91 کراچی) میں اپنے رب اور حضرت موسی (علیہ السلام) کے درمیان مسلسل آتا جاتا رہا حتی کہ اللہ تعالی نے فرمایا : یا محمد ! ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں (فرض) ہیں۔-
امام ترمذی، حضرت معاذ بن جبل (رض) سے ایک حدیث روایت کرتے ہیں، اس میں ہے :-
فلم ارجع بین ربی و بین موسی (علیہ السلام) حتی قال یا محمد انھن خمس صلوات کل یوم ولیلۃ (صحیح مسلم ج ١ ص ٩١ کراچی) میں اپنے رب اور حضرت موسی (علیہ السلام) کے درمیان مسلسل آتا جاتا رہا حتی کہ اللہ تعالی نے فرمایا : یا محمد ! ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں (فرض) ہیں۔-الخ (تبیان القرآن سورہ ٢٤ آیت ٦٣) خلاصہ کلام ادب یہ ہی ہے کہ حضور کا نام نہ پکارے بلکہ یا رسول اللہ یا نبی اللہ وغیرہ کہے
واللہ اعالم ورسولہ
ابو احمد ایم جے اکبری قادری حنفی
Comments
Post a Comment