نکاح کوئی اور بڑھاپے اور دستخط امام کرے

نکاح کوئی پڑھاۓ دستخط امام کرے؟
کو فروری 20, 2024

فرماتے ہیں مفیان کرام آج کل یہ ماحول بن گیا ہے کسی کے گھر نکاح ہے تو وہ لوگ اپنے کسی چاہنے والے مولانا کو دعوت دیتے ہے وہی مولانا نکاح پڑھاتا ہے مگر کاغز پر دستخط امام کو کرنا پڑھتا ہے جس سے کبھی ایسا بھی ہوتا شادی بگڑ جاتی اور معاملہ عدالت تک پہنچ جاتا ہے اور نکاح پڑھانے والے کو عدالت میں حاضر ہونا پڑھتا ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ یہ نکاح میں نے پڑھایا تھا حلانکہ نکاح کسی دوسرے نے پڑھایا تھا تو اب امام کا یہاں جھوٹ  بولنا لازم آیا اور جھوٹ گناہ کبیرہ ہے تو اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا اور اس طرح جالی دستخط کرنا کیسا شرعا حکم کیا ہے دلائل کی روشنی میں جواب عطا فرمائے 
سائل مولانا محمد علی نوی نال گجرات

الجواب وباللہ توفیق 
بے شک جھوٹ اؤر دھوکا دینا دونوں کبیرہ گناہ ہے 
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(آل عمران -61)
 ترجمہ:جھوٹوں پر اللہ کی لعنت  ہے۔
دھوکہ بازوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے: یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔(پ1،البقرۃ:9)

دھوکے کی تعریف:علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :کسی چیز کی(اصلی)حالت کو پوشیدہ رکھنا دھوکا ہے۔(فیض القدیر،ج6،ص240،تحت الحدیث:8879)۔ اور یہاں نکاح کوئی اور پڑھا رہا ہے اور دستخط امام کر رہا ہے جو جھوٹ اور دھوکا ہے 

دھوکے کے متعلق احادیثِ مبارکہ:

حدیث:دھوکا دینے والے سے اللہ عزوجل کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لاتعلقی کااظہار کیا ہے چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”جو شخص ہم پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جو شخص ہم کو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(صحيح مسلم/كِتَاب الْإِيمَان،حدیث: 283) اس حدیث پاک سے صاف ظاہر ہوا کہ اس طرح نکاح کوئی اور پڑھائے اور دستخط امام کرے یہ کام شریعت کے خلاف ہے اور بھارت کے عائن کے بھی خلاف ہے 
جھوٹ اور دھوکا منافق کی صفات ہیں جیسا کے 
فرمان رسول ہاشمی ﷺ ہے:
جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے،  اسے چھوڑدے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف  کرے  اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے(بخاری حدیث -٣٤) اس حدیث میں بات کرے تو جھوٹ بولے ہے اور امام جب نکاح رجیسٹر ہوتا ہے تو پنچائت میں بھی اسے دستخط کرنا ہوتا ہے اور وہاں پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے نکاح پڑھایا ہے اب اقرار کرتے ہے جو جھوٹ کا اور دھوکا کا دو گناہ کبیرہ میں امام مبتلا ہوا اور امام پر فاسق کا حکم لگے گا 
اور فاسق کی اقتدہ درست نہیں لہاذہ اس سے بچے 
تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪(مائدہ -٢)
ترجمہ کنزالعرفان:نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کے گناہ کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کرو اور اس جگہ نکاح نامہ پر اور پنچائت میں دستخط کرنا گناہ کے کام میں مدد ہے کینوکہ جو کام امام نے کیا نہیں اس پر دستخط کرنا گناہ ہے 

امام صاحب نے عدالت میں جھوٹ  بولنے اور بغیر دستخط کرکے   دھوکا دیا  اس وجہ سے ان پر  علی لاعلان توبہ فرض ہے بعد توبہ انکے پیچھے نماز جائز ،ورنہ جب تک توبہ نہ کرلے ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہوگی کیونکہ اعلانیہ فسق کرنے کے سبب وہ فاسق معلن ہوۓ اور فاسق معلن کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے
امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اعلانیہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب یا صغیرہ پر اسرار کرتا ہے تو اسے امام بنانا  گناہ ہے اور اسکے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کے پڑھنی گناہ اور پڑھ لی تو پھیرنی واجب (فتاویٰ رضویہ ج-٦ ص:٦٠١) 

لہذا امام صاحب کو عل ی الاعلان توبہ لازم ہے ورنہ جب توبہ نہ کرے انکے پیچھے نماز مکروہ تحریمی 
اور امام صاحب کو یہ تنبیہ کی جاتی ہے کہ آئندہ کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے اسکے حکم شرعی پر ضرور غور کرے ،تاکہ  گناہ  سے بچ سکے
خلاصہ کلام اس طرح کے کاغذات پر دستخط کرنا ناجائز اور گناہ ہے مگر ہم جانتے ہے کہ یہاں امام مجبور ہے کہ امام پر جاہل لوگ فتنہ کرے گے افسوس تو ان لوگوں پر ہے جو اتنا بھی نہیں جانتے کہ نکاح ہم نے پڑھایا ہے تو دستخط بھی ہم ہی کو کرنا ہے امام سے کیوں اگر ایسا ہی شوق ہے آپ کو یہاں گھر والوں کو کے ہم امام کے علاوہ کسی دوسرے سے نکاح پڑھائے تو دو میں ایک کام کرنا ہوگا یا تو دستخط خود نکاح پڑھانے والا کرے یا پھر ایجاب و قبول امام کرائے اور خطبہ آپ پڑھے کیونکہ اصل نکاح نام ہے ایجاب وقبول کا جو کہ امام کروائے تاکہ دستخط کرنے میں امام جھوٹا نہ ہو واللہ اعلم ورسولہ 
ابو احمد ایم جے اکبری 
تصدیق مفتی علی بخش صاحب اکبری دارالافتاء گلزار طیبہ 
مفتی ایم جے اکبری صاحب کا یہ فتویٰ شرعی، فقہی اور عملی اعتبار سے ایک اچھا فتویٰ ہے۔ یہ نہ صرف مسئلے کی شرعی حیثیت کو واضح کرتا ہے بلکہ سماجی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے قابل عمل حل بھی پیش کرتا ہے۔ فتویٰ کی جامعیت، دلائل کی مضبوطی اور زبان کی سادگی اسے قابل تحسین بناتی ہے۔ البتہ، 
 *تصدیق مولانا محمّد عارف* 
مفتی ابو احمد ایم جے اکبری صاحب کا فتویٰ ایک نہایت اہم اور قابلِ غور مسئلہ پر روشنی ڈالتا ہے، جو کہ موجودہ دور میں کئی جگہوں پر پیش آ رہا ہے۔ آپ کا انداز واضح، مدلل اور شرعی دلائل سے بھرپور ہے۔ چند اہم نکات جو اس فتویٰ سے سامنے آتے ہیں:

1. شرعی اصولوں کی پاسداری:
فتویٰ میں واضح طور پر قرآن و حدیث کی روشنی میں جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے کے گناہ کبیرہ ہونے کو بیان کیا گیا ہے، جو کہ ایک امام کے کردار کے بالکل خلاف ہے۔


2. امام کی حیثیت و ذمہ داری:
اگر امام نکاح نہ پڑھائے اور پھر دستخط کرے تو وہ نہ صرف جھوٹ بولتا ہے بلکہ قانونی و شرعی جھوٹ میں ملوث ہوتا ہے، جو اس کی امامت کو بھی مشکوک بنا دیتا ہے۔


3. عملی حل کی نشاندہی:
فتویٰ میں مسئلے کا حل بھی دیا گیا ہے کہ یا تو وہی شخص نکاح پڑھائے جو دستخط کرے، یا ایجاب و قبول امام صاحب کرائیں اور خطبہ دوسرا پڑھے، تاکہ قانونی و شرعی دونوں پہلو محفوظ رہیں۔


4. اجتماعی اصلاح کی طرف اشارہ:
یہ فتویٰ صرف ایک امام کو نہیں بلکہ پوری برادری کو متوجہ کرتا ہے کہ ایسے معاملات میں شریعت کی روشنی میں عمل کرنا ضروری ہے، چاہے لوگ کچھ بھی کہیں۔



میرا تاثّر:
یہ فتویٰ نہ صرف بصیرت افروز ہے بلکہ معاشرتی اور دینی ذمہ داریوں کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ خاص طور پر امام حضرات کو چاہیے کہ وہ اس پر عمل کریں، اور عوام الناس کو بھی سیکھنا چاہیے کہ صرف خطبہ سن لینا نکاح نہیں ہوتا بلکہ دستخط اور شرعی ایجاب و قبول کی حقیقت کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔
 *تصدیق مولانا محمّد علی* 
مفتی ایم جے اکبری صاحب کا یہ فتویٰ انتہائی جامع، دینی اصولوں کے مطابق اور قابل تحسین ہے۔ ان کے بیان کردہ نکات اور دلائل شریعت کی روشنی میں اہم اور واضح ہیں۔ یہاں چند اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے:

### 1. **جھوٹ اور دھوکہ دہی کی مذمت**:
فتویٰ میں جھوٹ اور دھوکہ دہی کو کبیرہ گناہ قرار دیتے ہوئے قرآن و حدیث کے حوالوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ جھوٹ اور دھوکہ منافق کی صفات میں سے ہیں اور ان سے بچنا ضروری ہے۔

### 2. **نکاح کی اہمیت اور شفافیت**:
نکاح جیسا مقدس عمل دیانت داری کا متقاضی ہے۔ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نکاح پڑھانے والے کو ہی دستاویزات پر دستخط کرنا چاہیے تاکہ شریعت اور قانونی اصولوں کے خلاف کوئی عمل نہ ہو۔

### 3. **امام کی ذمہ داری اور توبہ کا حکم**:
امام کے لیے جھوٹ بولنے اور غلط دستخط کرنے پر فاسق معلن ہونے کی بات کی گئی ہے، اور ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی قرار دی گئی ہے۔ تاہم، توبہ کی گنجائش اور اس کے بعد نماز کے جواز کی بات بھی کی گئی ہے۔

### 4. **فتنہ پیدا کرنے والے افراد کے لیے تنبیہ**:
فتویٰ ان لوگوں کو بھی مخاطب کرتا ہے جو امام کو اس صورت حال میں مجبور کرتے ہیں۔ یہ ایک اہم معاشرتی مسئلہ ہے جس پر توجہ دی گئی ہے۔

### 5. **دینی استقامت کی تعلیم**:
آخر میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ امام یا دیگر افراد شریعت کے اصولوں کو مدنظر رکھیں اور ہر عمل کو اس کی تعلیمات کے مطابق انجام دیں۔

### مجموعی تاثرات:
یہ فتویٰ مسلمانوں کے لیے ایک رہنمائی ہے جو نہ صرف شریعت کے مطابق ہے بلکہ ایک عملی حل بھی پیش کرتا ہے۔ اس میں دین کے اصول، اخلاقیات، اور قانونی مسائل کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کو اجر عظیم عطا فرمائے اور ہمیں دین کی صحیح تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین!

Comments

Popular posts from this blog

जो निकाह पढ़ाए वहीं दस्तखत करे

کیا حضور پر جادو کا اثر ہوا تھا

راکھی باندھنا حرام ہے