شوال میں عمرہ کرنے والوں پر حج
ایصالِ ثواب کی نیت کے ساتھ
یہ روشن تحقیق اور علمی فتویٰ
جو "شوال میں عمرہ کرنے والے پر استطاعت کے بغیر حج فرض نہ ہونے" کے مسئلہ پر مدلل و مفصل تحریر کیا گیا ہے،
اسے ہم اللہ کی بارگاہ میں ایصالِ ثواب کرتے ہیں:
١۔ قاری شاہد رضا صاحب اکبری کے والدینِ محترمین کے لیے
جنہوں نے ایک نیک دل، دینی جذبہ رکھنے والے فرزند کی تربیت فرمائی۔
اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو نور سے بھر دے،
ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے،
اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
٢۔ فقیر (تحریر کے محرک) کے والدین کے لیے
جن کی دعا، تربیت اور محبت اس کام کا محرک و وسیلہ بنی۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے،
ان کی مغفرت فرمائے،
اور ان کے حق میں یہ علمی خدمت صدقۂ جاریہ بنے۔
٣۔ تمام امتِ محمدیہ کے مرحومین کے لیے
جنہوں نے ایمان پر دنیا سے رخصت لی۔
اللہ رب العزت ان سب کی مغفرت فرمائے،
ان کی قبروں کو راحت و نور سے بھر دے،
اور ان پر اپنی بے پایاں رحمت کے دروازے کھول دے۔
---
اللّٰھم اجعل ھذا العمل صدقۃً جاریۃً لنا و لوالدینا و لأحبابنا و لسائر أموات المسلمین والمسلمات والمؤمنین والمؤمنات۔
"اے اللہ! اس عمل کو ہمارے، ہمارے والدین کے، ہمارے محبوبوں کے، اور تمام مسلمانوں و مومنوں کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے۔"
========
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
روشن تحقیق
دارالافتاء گلزارِ طیبہ کی جانب سے
شوال میں عمرہ کرنے والے پر استطاعت کے بغیر حج فرض ہونے کی حقیقت
(ایک علمی و شرعی تحقیق)
---
مروجہ غلط فہمی:
آج کل ایک بات بہت زور و شور سے عوام میں پھیلائی جا رہی ہے:
> "جو شخص شوال میں عمرہ کرے، وہ حج کیے بغیر واپس نہ آئے، ورنہ گناہگار ہوگا، چاہے اس کے پاس وہاں قیام، طعام اور ویزا کی بھی استطاعت نہ ہو۔"
یہ نظریہ عوام کو غیر ضروری پریشانی اور وسوسوں میں مبتلا کرتا ہے اور شریعتِ مطہرہ کی اصل تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔
---
قرآنی رہنمائی:
> "ولِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا"
(آل عمران: 97)
ترجمہ:
"اور اللہ کے لیے لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرض ہے، جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔"
یہ آیتِ مبارکہ واضح شرط رکھتی ہے کہ حج صرف اسی پر فرض ہے جسے "استطاعت" حاصل ہو۔
---
استطاعت کی تفصیل:
صدر الشریعت حضرت مولانا امجد علی اعظمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
> "استطاعت یہ ہے کہ انسان کے پاس اتنا زائد مال ہو کہ:
مکہ تک جانے اور واپس آنے کے کرایہ و خرچ کا بندوبست ہو
قیام و طعام کا مکمل انتظام ہو
گھر کے اہل و عیال کا خرچ بھی چھوڑ کر جائے
قرض اور ضروریاتِ زندگی سے فارغ ہو"
(بہار شریعت، جلد 2، ص 11 تا 12)
---
حضور ﷺ کی وعید:
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "جس پر کوئی رکاوٹ (بیماری، خرچ یا ظالم حاکم) نہ ہو، پھر بھی حج نہ کرے اور اسی حالت میں مر جائے، تو چاہے یہودی ہو کر مرے یا نصرانی۔"
(سنن دارمی، ج 1، ص 360)
لیکن یہ وعید صرف ان لوگوں پر ہے جو استطاعت کے باوجود حج ترک کریں۔
جس پر حج فرض ہی نہیں ہوا، وہ اس وعید میں شامل نہیں۔
---
حج بدل سے استدلال کا رد:
اگر صرف مکہ میں حج کے دنوں میں موجود ہونا حج فرض ہونے کے لیے کافی ہوتا، تو حج بدل کرنے والے نادار حضرات پر بھی حج فرض ہو جاتا، حالانکہ فقہاء اس کے قائل نہیں۔
---
فتاویٰ عالمگیری کی وضاحت:
> "جو شخص صرف عمرہ کرے، وہ چاہے حج کے مہینوں (شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ) میں کرے، یا کسی اور مہینے میں – اس پر حج لازم نہیں ہوتا۔"
(فتاویٰ عالمگیری، ج 1، ص 237)
---
اہل مکہ کے لیے مختلف حکم:
> "اہل مکہ اور اس کے قریبی علاقوں کے لوگوں پر حج اس وقت فرض ہوتا ہے جب ان کے پاس اہل و عیال کے لیے طعام کا انتظام ہو، خواہ ان کے پاس سواری نہ ہو۔"
(عالمگیری، ج 1، ص 217)
دوردراز سے آنے والے زائرین کے لیے رہائش، خوراک، واپسی کا خرچ اور قانونی ویزا نہ ہو، تو ان پر حج فرض نہیں ہوتا۔
---
قرض لے کر حج کا مسئلہ:
ایسے شخص کے لیے قرض لے کر حج کرنا تب جائز ہے جب پہلے اس پر حج فرض ہو چکا ہو اور اس کا مال تلف ہو گیا ہو۔
اگر غالب گمان ہو کہ قرض ادا نہ کر سکے گا، تو قرض نہ لینا افضل ہے۔
(ردالمختار، ج 2، ص 141)
---
حتمی خلاصہ:
شوال میں عمرہ کرنے والا اگر:
حج تک وہاں قیام و طعام کا انتظام نہیں رکھتا
ویزا نہیں ہے
واپسی کا عزم رکھتا ہے
تو اس پر حج فرض نہیں ہوتا، نہ ہی اس کے واپس آنے پر وہ گناہگار ہوتا ہے، نہ اس پر قرض لے کر حج کرنا لازم ہے۔
---
نوٹ برائے تسلی قلب:
یہ مکمل فتویٰ
قرآنِ مجید، احادیثِ مبارکہ، فقہی ذخیرے اور
مشہور تفسیر "تبیان القرآن" (جلد اول، صفحہ 610) کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے۔
---
خادم ابو احمد ایم جے اکبری
دارالافتاء گلزارِ طیبہ
سنجیدہ فکری رہنمائی کا روشن مرکز
علمی فتووں اور عوامی اصلاحات کی شرعی خدمت
💐💐💐💐💐💐
مولانا علی بخش صاحب اکبری کی طرف سے فتویٰ پر تاثراتدارالافتاء گلزارِ طیبہ کی جانب سے جاری کردہ فتویٰ بعنوان "شوال میں عمرہ کرنے والے پر استطاعت کے بغیر حج فرض ہونے کی حقیقت" ایک قابلِ تحسین، علمی، شرعی اور عوامی رہنمائی سے بھرپور دستاویز ہے۔ یہ فتویٰ نہ صرف موجودہ دور میں پھیلائی جانے والی ایک غلط فہمی کا سدِباب کرتا ہے بلکہ شریعتِ مطہرہ کے واضح احکام کو قرآن، حدیث اور فقہی ذخیرے کی روشنی میں نہایت سادگی اور جامعیت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ ذیل میں اس فتوے پر چند اہم تاثرات پیش کیے جاتے ہیں:غلط فہمی کا بروقت ازالہ:
آج کل عوام میں یہ نظریہ کہ "شوال میں عمرہ کرنے والا اگر حج نہ کرے تو گناہگار ہوگا" غیر ضروری وسوسوں اور پریشانی کا باعث بن رہا تھا۔ یہ فتویٰ اس غلط فہمی کو قرآن مجید کی آیت (آل عمران: 97) اور معتبر فقہی حوالوں کے ذریعے واضح طور پر رد کرتا ہے۔ یہ بات زور دے کر بیان کی گئی کہ حج کی فرضیت کے لیے استطاعت بنیادی شرط ہے، اور محض مکہ میں موجودگی یا شوال میں عمرہ کرنا اسے فرض نہیں کرتا۔ یہ نقطہ عوام کے لیے نہایت اطمینان بخش ہے۔شرعی دلائل کی جامعیت:
فتویٰ میں قرآن مجید، احادیث نبویہ (مثلاً سنن دارمی کی روایت)، اور فقہی کتب جیسے بہار شریعت، فتاویٰ عالمگیری، اور ردالمختار سے استدلال کیا گیا ہے۔ خاص طور پر تفسیر تبیان القرآن کا حوالہ اس فتوے کی علمی گہرائی کو مزید تقویت دیتا ہے۔ استطاعت کی تفصیل اور اس کے شرعی تقاضوں کو نہایت وضاحت سے بیان کیا گیا، جو اس فتوے کو علمی اعتبار سے مستند بناتا ہے۔عوامی رہنمائی کا دل نشین انداز:
فتویٰ کا اسلوب نہایت سادہ، روان اور عوام کے لیے قابلِ فہم ہے۔ پیچیدہ فقہی مسائل، جیسے کہ قرض لے کر حج کرنے کا حکم یا اہل مکہ کے لیے مختلف شرائط، کو مختصر مگر جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ حتمی خلاصہ کا سیکشن خاص طور پر قابلِ تعریف ہے، جو تمام نکات کو چند جملوں میں سمیٹ کر عوام کے لیے رہنمائی کو آسان بناتا ہے۔فقہی نکات کی گہرائی:
فتویٰ میں حج بدل کے استدلال کا رد، اہل مکہ کے لیے مختلف حکم، اور قرض لے کر حج کرنے کے شرعی ضوابط جیسے فقہی نکات کو نہایت خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ نکات ظاہر کرتے ہیں کہ دارالافتاء نے نہ صرف عوامی سطح پر رہنمائی کی ہے بلکہ فقہی گہرائی کو بھی برقرار رکھا ہے۔وسوسوں سے نجات اور تسلی قلب:
فتوے کا نوٹ برائے تسلی قلب عوام کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ یہ فتویٰ معتبر شرعی مآخذ پر مبنی ہے اور اس کا مقصد عوام کو غیر ضروری گناہ کے خوف سے نجات دلانا ہے۔ اس سے دارالافتاء کی عوامی اصلاحات اور فکری رہنمائی کے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔دارالافتاء کی خدمات کی عکاسی:
دارالافتاء گلزارِ طیبہ نے اس فتوے کے ذریعے ایک بار پھر اپنے ادارے کو "سنجیدہ فکری رہنمائی کا روشن مرکز" ثابت کیا ہے۔ اس طرح کے فتووں سے نہ صرف عوام کی شرعی رہنمائی ہوتی ہے بلکہ معاشرے میں پھیلنے والی غلط فہمیوں کا خاتمہ بھی ہوتا ہے۔تجاویز:اس فتوے کو مزید وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا، مساجد، اور دینی مراکز کے ذریعے عوام تک پہنچایا جائے۔اسے مقامی زبانوں میں ترجمہ کر کے غیر اردو داں طبقات کے لیے بھی قابلِ رسائی بنایا جائے۔اس موضوع پر عوامی مجالس اور سوال و جواب کے سیشنز منعقد کیے جائیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں سے وسوسے مکمل طور پر ختم ہوں۔اختتامی کلمات:یہ فتویٰ دارالافتاء گلزارِ طیبہ کی علمی و شرعی خدمات کا ایک روشن نمونہ ہے۔ اس کی تیاری میں جو محنت، تحقیق اور اخلاص شامل ہے، وہ لائقِ تحسین ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو مزید ترقی عطا فرمائے اور اسے عوام کی دینی و شرعی رہنمائی کا ذریعہ بنائے۔ آمین۔واللہ تعالیٰ اعلم
مولانا علی بخش اکبری
تاریخ: 17 مئی 2025ء
Comments
Post a Comment