قربانی کرنے والے کو بال ناخن

دارالافتاء گلزارِ طیبہ
(سلسلہ دعوت و تبلیغِ مسلک اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ)

سوال نمبر: ۱۲۳۴
موضوع: عید کے چاند کے بعد ناخن و بال ترشوانے کا حکم
سائل: ایس کے اکبری، ضلع؟ (صرف "راجستھان" لکھا گیا، آئندہ مکمل پتہ تحریر کریں)

سوال:
زید کہتا ہے کہ عید کی نماز سے پہلے پہلے ناخن، بال وغیرہ کاٹ لینا چاہیے اور جب عید کا چاند نظر آ جائے تو پھر نہیں کاٹ سکتے۔ اس لیے عید کے چاند سے پہلے پہلے کاٹ لینا چاہیے۔ کیا یہ بات درست ہے؟ تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔

الجواب بعون الملک الوہاب
اگر سائل کی مراد عیدالفطر ہے تو یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ عیدالفطر کے چاند کے بعد بال یا ناخن نہ کاٹنے کی کوئی شرعی ممانعت یا ممانعت پر مبنی حدیث موجود نہیں، اس لیے اس حوالے سے کوئی پابندی ثابت نہیں۔

البتہ اگر مراد عیدالاضحیٰ (بقرعید) ہے، اور زید خود قربانی کرنے والا ہے، تو ایسی صورت میں ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے لے کر قربانی کرنے تک ناخن اور بال نہ کاٹنے کی ہدایت آئی ہے۔

یہ حکم فرض یا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، یعنی بہتر اور باعثِ ثواب عمل ہے، کیونکہ قربانی کی مشابہت حاجیوں کے ساتھ کی جا رہی ہے۔

حدیث مبارکہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب ذوالحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔"
(صحیح مسلم، حدیث: 1977)

لہٰذا خلاصہ یہ ہے کہ:

اگر عیدالفطر مراد ہے: تو یہ بات غلط ہے، ناخن و بال کاٹنے میں کوئی حرج نہیں۔

اگر عیدالاضحیٰ مراد ہے، اور زید قربانی کرنے والا ہے، تو ذوالحجہ کے چاند سے قربانی تک ناخن و بال نہ کاٹنا مستحب عمل ہے۔


تنبیہ برائے سائل:
دارالافتاء سے سوال کرتے وقت نام اور مکمل پتہ (ضلع و شہر) ضرور لکھیں۔ صرف ’’راجستھان‘‘ لکھ دینا کافی نہیں ہوتا۔ مکمل تعارف سے فتویٰ کی ترتیب میں سہولت رہتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

✍🏻 ابو احمد ایم جے اکبری
دارالافتاء گلزارِ طیبہ

Comments

Popular posts from this blog

जो निकाह पढ़ाए वहीं दस्तखत करे

کیا حضور پر جادو کا اثر ہوا تھا

نسبندی کا شرعی حکم