انسان اپنے جسم کا مالک نہیں
فتویٰ: انسان اپنے جسم کا مالک نہیں ہے
سوال:
کیا انسان اپنے جسم کا مالک ہوتا ہے؟ کیا وہ اپنے جسم کے ساتھ جو چاہے، کر سکتا ہے؟ اس مسئلہ کی شرعی حیثیت واضح فرمائیں۔
الجواب بعون الملک الوھّاب
اسلامی شریعت میں یہ اصول مسلم ہے کہ انسان اپنے جسم کا مالک (مالک حقیقی) نہیں بلکہ امین ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اسے بطور امانت اس جسم کا اختیار دیا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے عبادت کرے اور اللہ کی رضا حاصل کرے۔ انسان کو اپنے جسم میں تصرف کرنے کا جو حق دیا گیا ہے، وہ شرعی حدود کے اندر ہی جائز ہے، نہ کہ مطلق اور آزادانہ۔
دلائل شرعیہ
1. قرآن مجید کی دلیل:
"وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا"
(النساء: 29)
ترجمہ: "اور اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔"
— اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کو اپنی جان کے تلف کرنے (خودکشی، جسم کاٹنے، نقصان پہنچانے) کی اجازت نہیں، کیونکہ وہ اس کا مالک نہیں بلکہ ایک امانت دار ہے۔
2. حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
"إنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا"
(بخاری، کتاب الصوم، حدیث: 1969)
ترجمہ: "یقیناً تمہارے جسم کا تم پر حق ہے۔"
— اس حدیث میں واضح فرمایا کہ جسم تمہاری ملکیت نہیں، بلکہ ایک حق رکھنے والی چیز ہے، اور تم پر اس کی حفاظت فرض ہے۔
3. حرمت خودکشی:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشی کرنے والے پر لعنت فرمائی اور اسے ہمیشہ کی جہنم کا مستحق قرار دیا۔ اگر انسان اپنی جان کا مالک ہوتا تو خودکشی کو گناہ نہ کہا جاتا۔
"من قتل نفسه بشيء عذّبه الله به يوم القيامة"
(بخاری و مسلم)
ترجمہ: "جو شخص اپنے آپ کو جس چیز سے قتل کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسی چیز سے اسے عذاب دے گا۔"
4. فقہاء کا اجماع:
فقہاء کرام نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ:
> "الإنسان لیس مالكًا لجسده، بل هو أمانة عنده، فلا يجوز له إتلافه أو بيعه."
ترجمہ: "انسان اپنے جسم کا مالک نہیں بلکہ یہ اس کے پاس ایک امانت ہے، لہٰذا اس کو ضائع کرنا یا بیچنا جائز نہیں۔"
فقہی نتائج:
جسمانی اعضا کو کاٹنا، نقصان پہنچانا، یا بیچنا ناجائز ہے۔
خودکشی، نس بندی، اعضاء کی فروخت، یا نقصان دہ سرجری جائز نہیں، الا یہ کہ شرعی ضرورت ہو۔
انسان پر فرض ہے کہ وہ اپنے جسم کی حفاظت کرے، علاج کرائے، بے جا تکلیف نہ دے، اور اسے اللہ کے حکم کے مطابق استعمال کرے۔
---
خلاصہ:
انسان اپنے جسم کا مالک نہیں بلکہ امین ہے، اور اس کو صرف شرعی حدود کے مطابق ہی استعمال کرنے کا اختیار ہے۔ شریعت نے اس پر جسم کی حفاظت، صحت کا خیال، اور اس سے عبادت لینے کو لازم قرار دیا ہے۔ لہٰذا جسمانی تصرفات میں آزاد مرضی کی اجازت نہیں بلکہ شریعت کی پابندی لازمی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
فتویٰ: مفتی ایم جے اکبری
دارالافتاء گلزارِ طیبہ، گجرات (بھارت)
Comments
Post a Comment